Uncategorized

کشمور کے اے ایس آئی اور انکی بیٹی نے پورے ملک کا دل جیت لیا


0

گزشتہ روز سندھ کے شہر کشمور میں پیش آیا انسانیت سوز واقعہ جہاں ایک خاتون کو نوکری کا جھانسہ دے کر بلانے کے بعد درندہ صفت انسانوں نے خاتون اور اس کی چار سالہ بیٹی کو دو ہفتے تک اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا، بعدازاں پولیس کی جانب سے کارروائی کرتے ہوئے واقعے میں ملوث ایک مجرم کو گرفتار کرلیا گیا تاہم دیگر دو فرار ہونے والے مجرمان کی تلاش جاری ہے۔اس واقعے کے دوران کشمور پولیس کے سب انسپکٹر محمد بخش نے اپنی پیشہ ورانہ خدمات سے ناصرف عام عوام کا محکمہ پولیس بھروسہ مزید بڑھایا بلکہ انسانیت کی اعلی مثال قائم کردی۔

تفصیلات کے مطابق مالی حالات سے پریشان حال خاتون جن کا تعلق کراچی سے ہے، ان کی ملاقات کراچی کے اسپتال میں کچھ افراد سے ہوئی جنہوں نے خاتون کو چالیس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر کشمور میں نوکری کی پیشکش کی، جس پر خاتون نے رضا مندی ظاہر کردی۔

پولیس میں درج شدہ ایف آئی آر کے مطابق خاتون کو گزشتہ ماہ کی 25 تاریخ کو ملزمان کی جانب سے نوکری کی پیشکش کی، جس کے بعد خاتون اپنی چار سالہ بیٹی کے ساتھ ان مشتبہ افراد کے ساتھ کشمور کے لئے روانہ ہوئیں، تاہم کشمور پہنچنے پر مالک نامی ایک گھر میں انہیں لے جایا گیا، جہاں انہیں ناصرف قید کردیا گیا بلکہ خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی بھی کی گئی۔ جس کی تصدیق میڈیکل رپورٹس میں بھی ہوچکی ہے۔

kashmore
Image Source: Twitter

بعدازاں مجرمان کی جانب سے خاتون کو تو اپنی تحویل سے رہائی دے دی گئی لیکن چار سالہ معصوم بیٹی کو وہیں روک لیا گیا اور خاتون کے آگے شرط رکھ دی گئی کہ اس خاتون کو یہاں لیکر آیا جائے جو اس دن اسپتال میں تمھارے ساتھ تھی اور پھر اپنی بیٹی کو لے جاؤ۔ یہی نہیں ساتھ ہی ساتھ خاتون کو دھمکی بھی دی گئی کہ اگر خاتون، اسپتال میں والی خاتون کو یہاں لیکر نہیں آئیں تو وہ اس کی چار سالہ بچی کو قتل کردیں گے۔

جس کے بعد خاتون نے نہایت ہی پریشانی کے عالم میں کشمور پولیس سے رابطہ کرکے اسٹنٹ سب انسپکٹر محمد بخش کو پورے کا احوال بتایا کہ مجرمان اس کی بیٹی کو اس وقت تک نہیں چھوڑیں گے جب تک وہ کسی خاتون کو ان کے حوالے نہیں کردیتی لہذا اسٹنٹ سب انسپکٹر محمد بخش نے اس کیس کے اندر اپنی سگی بیٹی کو بطور معاونت شامل کیا۔

بعدازاں متاثرہ خاتون سے کہا گیا کہ وہ ملزمان کو اطلاع دیں کہ انہوں نے دوسری خاتون کا بندوبست کرلیا ہے، لہذا مجرمان کو اعتماد میں لینے کے بعد پولیس کی جانب سے متعلقہ گھر جوکہ ملک ہاؤس کے نام سے مشہور ہے، وہاں ہر چھاپہ مارا گیا، اس دوران پولیس نے ایک مجرم محمد رفیق ملک کو موقع پر گرفتار کرلیا البتہ دیگر دو مجرمان فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے، تاہم پولیس کی جانب سے مجرمان کی تلاش جاری ہے۔

جیسے ہی عوام کو سوشل میڈیا کے ذریعے اسٹنٹ سب انسپکٹر محمد بخش کی بہادری اور ہمت سے بھرپور اس واقعے کا پتہ لگا، تو لوگوں اسے اصل زندگی کا ہیرو قرار دے دیا، سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر عوام کی جانب سے اے ایس آئی محمد بخش پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے بڑھ کر خدمت انجام دینے پر انہیں خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے۔

چھاپے کے دوران پولیس کی جانب سے مجرمان کے قبضے سے 4 سالہ بچی کو بازیاب کروایا، اس حوالے سے پکڑے جانے والے ملزم محمد رفیق ملک نے اعتراف کیا کہ اس نے معصوم بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا ہے، کیونکہ اسے اس کی والدہ پر شدید غصہ تھا۔ جبکہ پولیس کی جانب سے اس بات کی تصدیق کی گئی کہ بچی کے اوپر نشانات واضح ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بچی پر تشدد اور زیادتی کا نشانا بنایا گیا ہے۔ جس کے بعد پولیس کی جانب سے متاثرہ بچی اور خاتون کو تعلقہ اسپتال کشمور منتقل کردیا گیا۔

معصوم بچی کی حالت خراب ہونے پر اسے پھر لاڑکانہ منتقل کیا گیا جہاں اسے بہتر طبی سہولیات فراہم کی گئیں۔ جس کے بعد کشمور پولیس اسٹیشن میں تینوں مجرمان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا اور محمد رفیق مالک کو بدھ کے روز لاڑکانہ کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ جس پر عدالت کی جانب سے پولیس کو ملزم کا تین روزہ ریمانڈ دے دیا گیا۔ جبکہ دیگر دو ملزمان کی تلاش جاری ہے۔

Image Source: Twitter

دوسری جانب گورنر سندھ عمران اسماعیل کی جانب سے کشمور واقعے کا نوٹس لے لیا گیا ہے، ترجمان گورنر سندھ کے مطابق گورنر سندھ عمران اسماعیل نے آئی جی سندھ مشتاق مہر اور چیف سیکرٹری سندھ سے رابطہ کرکے واقعہ کی فوری رپورٹ طلب کرلی ہے۔

گورنر سندھ عمران اسماعیل نے اس واقعے پر شدید غم و غصے اظہار کرتے ہوئے واقعے میں ملوث تمام ملزمان کو جلد از جلد گرفتار کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ تمام ملزمان کو سخت سے سخت سزا دی جائے گی۔

خیال رہے پاکستان میں زیادتی کے واقعات میں پچھلے کچھ عرصے میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، عوام کا مطالبہ ہے کہ حکومت مجرمان کو سخت سزائیں دے تاکہ اس طرح کے واقعات میں کمی آسکے۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *