گوگل میں نوکری کا خواب،39 بار درخواست مسترد ہونے کے بعد بالآخر ملازمت مل گئی


1

من پسند نوکری حاصل کرنا کون نہیں چاہتا۔۔۔ مگر آج کل کے حالات میں یہ سب کتنا مشکل ہے یہ صرف وہی لوگ جانتے ہیں جو من پسند نوکری حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم بہت سے لوگ اپنی خوش نصیبی کی بدولت نہایت کم مدت میں من پسند نوکری حاصل کر لیتے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ سفارش اور رشوت کا استعمال کر کے بھی کہیں نا کہیں اپنی من پسند فرم میں خود کو فٹ کرلیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے لوگ تو تھک ہار کر نوکری حاصل کرنے کا خیال ہی اپنے دل سے نکال دیتے ہیں جو کہ نہایت افسوس ناک بات ہے ہر نوجوان چاہتا ہے۔ لیکن آج ہم آپ کو ایک ایسے نوجوان کے بارے میں بتارہے ہیں جس نے اپنی پسند کی نوکری حاصل کرنے کے لئے مستقل مزاجی کی اعلیٰ مثال قائم کردی۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی نوجوان  ٹائلر کوہن کو مسلسل 39 بار درخواست مسترد کیے جانے کے بعد بلآخر دنیا کی مشہور کمپنیوں میں سے ایک گوگل میں ملازمت مل ہی گئی۔  اطلاعات کے مطابق گوگل میں ملازمت ملنے سے قبل کوہن امریکی شہر سان فرانسسکو کی ایک نجی کمپنی میں ایسوسی ایٹ مینیجر کے طور پر کام کرتے تھے۔

Image Source : Facebook

کوہن کا ایک ہی مقصد تھا کہ وہ کسی طرح گوگل میں ملازمت حاصل کریں جس کے لیے انہوں نے 25 اگست 2019 میں پہلی بار کمپنی میں اپلائی کیا لیکن ان کی درخواست مسترد کردی گئی۔پھر انہوں نے ستمبر 2019 میں دو بار درخواست دی لیکن اس بار بھی نتیجہ وہی نکلا۔

Image Source : Facebook

بعد ازاں 2020 میں کورونا وبا کے دوران کوہن نے پھر گوگل میں ملازمت کیلئے اپلائی کیا اور اس بار بھی ان کی درخواست مسترد کردی گئی اور یہ سلسلہ 2022 تک جاری رہا۔ کوہن نے ہمت نہیں ہاری اور مستقل مزاجی کا مظاہرہ کیا اور یہی ان کی کامیابی کی وجہ بنا ،19جولائی 2022 کو انہیں بلآخر گوگل میں ملازمت مل گئی، پر اس دوران انہیں 39 بار کمپنی نے ری جیکٹ کیا۔ اپنی پسندیدہ نوکری حاصل کرنے کے اس سفر کو کوہن نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا جس پر صارفین نے ان کی مستقل مزاجی کو سراہا۔ تاہم دوسری جانب کچھ صارفین نے گوگل کی پالیسی پر بھی تنقید کی۔

Image Source : Facebook

تاہم اس کے برعکس پاکستان میں سوات سے تعلق رکھنے والا ایم ایس سی کوالیفائیڈ طالب علم سوئپر بھرتی ہوگیا۔ خیبرپختونخوا کےضلع سوات  کی تحصیل کبل میں والدین کے واحد سہارے نوجوان طالب علم نےخوب دل لگا کر محنت کی اور ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کرلی۔ ظفر علی نے اچھی نوکری کے حصول کے لئے اپنی پوری کوششیں کیں لیکن نتائج کچھ نہ نکلے۔ انہوں نے خیبرپختونخوا میں ٹیچنگ اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں نائب قاصد سمیت درجنوں درخواستیں دیں لیکن کوئی جواب نہ ملا، راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی میں سوئپر کی نوکری ملی تو انہوں نے ہاں کہہ دی۔

بلاشبہ نوجوان ہر قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں جو ملک و قوم کی ترقی میں نہ صرف اہم اور ذمہ دارانہ کردار ادا کرتے ہیں بلکہ معاشرے کو اخلاقی اقدار، سماجی، ثقافتی اور تخلیقی ذہنوں سے روشناس کرواتے ہیں۔ لیکن آج کے اس دور میں انہی نوجوانوں کی بیروزگاری ایک المیہ بن چکی ہے۔جس کا حل خاص طور پر وطن عزیز میں دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ ہمارے پاس ہزاروں کی تعداد میں پڑھے لکھے نوجوان موجود ہیں جن کے پاس ڈگری ہے اور وہ کام کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں مگر مناسب مواقع فراہم نہ ہونے کی وجہ سے اپنی فیلڈ میں کام نہیں کرپا رہے۔


Like it? Share with your friends!

1

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *