مشہور پاکستانی گلوکار “واسو” آج دو وقت کی روٹی کا محتاج


-1

سال 2011 میں ریلیز ہونے والا پاکستانی گلوکار شہزاد رائے کا مشہور و معروف گانے “اپنے الو” سے کون واقف نہیں ہے۔ اس گانے میں گلوکار شہزاد رائے کی جانب سء جہاں پورے پاکستان کی سیاسی تاریخ انتہائی منفرد اور دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا تھا وہیں اس گانے کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت شہزاد رائے کے دوست “واسو” کی پرفارمنس تھیں جن کے مختلف انداز نے تمام سننے اور دیکھنے والوں کے دل جیت لئے تھے۔

ان دنوں بس سب ہی ذہنوں میں یہی سوال تھا کہ آخر “واسو” کون ہے اور اچانک بزرگ شہری کی پرفارمنس شہزاد رائے جیسے بڑے گلوکار کے گانے میں کیسے ہوگئی۔ ان تمام چیزوں کا احوال شہزاد رائے کی جانب سے بتایا کہ واسو ان کے دوست ہیں، جن کا تعلق صوبہ بلوچستان کے علاقے جعفر آباد سے ہے جبکہ پیشے کے اعتبار سے وہ ایک غریب مزدور ہیں۔ تاہم اس گانے کے بعد گویا واسو کی عرصے کے لئے تقدیر ہی بدل گئی ہو، جعفر آباد سے نکل کر وہ پورے ملک میں ایک بڑی شخصیت کے طور پر سامنے آئے جبکہ ان کی پرفارمنس پر پورے کے لوگوں کی جانب سے داد دی گئی۔

مشہور گانے ” اپنے الو ” میں واسو کی جانب سے پاکستان کی سیاسی تاریخ جہاں مختلف انداز میں بیان کیا گیا تھا وہیں واسو اس ہی عرصے کے دوران ایک بار پھر ایک نئے شہزاد رائے کے گانے “بیاہ بیاہ” میں جلوہ گر ہوئے۔ یہ گانا پچھلے گانے سے تھوڑا مختلف تھا اس گانے میں بلوچستان کے مشہور اور معروف لوک گلوکار “مرید بلیدی” کو خراج تحسین پیش کیا گیا تھا۔

Wasu Balochistan
Source: Pakium.com

تاہم جس تیزی سے واسو کی زندگی کو ایک مقام ملا تھا، شہرت ملی تھی بالکل اس ہی طرح ان کی زندگی میں ایک بار پھر سے ویرانی نے بسیرا کرلیا اور وہ آہستہ آہستہ لوگوں کے ذہنوں سے گم ہوتے گئے۔

البتہ حال ہی میں سماجی رابطے کی مختلف ویب سائٹس پر واسو کی زندگی سے متعلق خبریں زیر گردش ہیں کہ واسو ان کی دنوں ایک کسمپرسی اور مفلسی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔

سماجی رابطوں کہ ویب سائٹس پر جاری خبروں کے مطابق واسو کے معاشی حالات اس قدر خراب ہیں کہ وہ آج دو وقت کی روٹی کھانے کی بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ جبکہ اب ان کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ، گلوکار شہزاد رائے بھی نہیں۔ اگرچہ شہزاد رائے جہاں ایک جانب آج بھی سماجی خدمت کے منصوبوں سے جڑے ہوئے ہیں وہیں واسو جیسے مختلف لوگوں کی آج بھی دل کھول کر مدد کرنے والے لوگوں میں شہزاد رائے کا شمار کیا جاتا ہے۔

جبکہ دوسری جانب سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر واسو کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے لوگ مختلف انداز تبصرے اور تجزیے کررہے ہیں۔ کچھ لوگ اس معاملے میں شہزاد رائے کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں تو کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شہزاد رائے نے تو ایک غریب انسان کو قومی سطح پر متعارف کروایا ان کی اس میں کوئی غلطی نہیں، ساتھ ہی ساتھ لوگوں کی جانب سے ان کی مدد کا عظم بھی ظاہر کیا جارہا ہے۔

اس حوالے سے مزید جانئے: دیکھیئے حلیمہ سلطان اور ارتغرل کے اردو وائس اوور آرٹسٹ

اگرچہ اگر دیکھا جائے تو بحث و مباحثہ کی اس معاملے میں کوئی ضرورت نہیں، سوشل میڈیا پر یہ فیصلہ کرنا کون درست اور کون غلط یہ اس وقت اہم نہیں ہے بلکہ اس وقت ضروری ہے کہ یہ جانا جاسکے کس طرح واسو کو تلاش کیا جاسکتا ہے اور واسو کی مدد کی جاسکتی ہے۔ بحیثیت پاکستانی اب ہمارا فرض بنتا ہے کہ معاملا شہزاد رائے پر ڈالنے سے بہتر ہے کہ ہم واسو کی مدد کریں کیونکہ وہ پاکستان کا ناصرف ایک فنکار تھا بلکہ وہ اس قوم کا فخر بھی ہے۔


Like it? Share with your friends!

-1

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *