شریک حیات میں کیا خوبیاں ہونی چاہیے؟


0

خالق ارض و سماوات نے تمام مخلوقات کو دو الگ فطری تقاضوں اور رجحانات کے ساتھ تخلیق کیا۔ جیسے دن کے ساتھ رات، پھول کے ساتھ کانٹے۔ آگ کے ساتھ پانی، اندھیرے کے ساتھ اجالا، زمین کے ساتھ آسمان وغیرہ۔ اسی طرح نوع انسانی کے لئے بھی شریک حیات کو پیدا فرمایا۔ یعنی تمام مخلوق کے ساتھ صنف مخالف نہ ہوتی تو کائنات میں ایسا تنوع، انفرادیت اور خوبصورتی نہ ہوتی۔

Sharike Hayat Ka Intakhab

مرد اور عورت خالق کائنات کی نظر میں انسان کی تخلیق اللہ نے مٹی سے کی اور اس کو اشرف المخلوقات قراردیا ۔پھر اسی کی بائیں پسلی سے عورت کو پیدا کیا۔دونوں کے دِل میں ایک دوسرے کے لیے کشش رکھ دی اور محبت کے پاک جذبے سے انہیں سرفراز فرمایا تاکہ وہ دونوں ایک دوسرے کے ہمدرد و غم گسار ہوں اور ایک دوسرے کی جذباتی تکمیل کرسکیں۔

چنانچہ سورۃ الروم کی آیت نمبر 21 میں ارشاد فرمایا:

’’”اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ تمہارے لیے تم ہی میں سے بیویاں پیدا کیں تاکہ ان کے پاس چین سے رہو اور تمہارے درمیان محبت اور مہربانی پیدا کر دی۔”

اس آیت سے واضح ہوجاتا ہے کہ نکاح اور شادی کا اصل مقصد ایک پرسکون اور خوشیوں بھری زندگی کا آغاز ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ معاشرتی اور اجتماعی طورپر کہیں نہ کہیں ہم سے غلطی ہورہی ہے جس کی وجہ سے ہم اس خوبصورت رشتے کے ان فوائد سے محروم ہیں جنہیں اللہ نے بیان کیا ہے۔

زندگی میں شادی ایک ایسا سنگ میل ہے جس سے گزرنے کے بعد زندگی یا تو آسان ہو جاتی ہے یا فریقین کے لیے انتہائی دشوار۔ خالق کائنات نے مرد اور عورت کو مختلف جسمانی صلاحیت، ساخت، ہیئت، فطری میلان اور زاویہ فکر سے نوازا۔ اور ان کی ذمہ داریوں کو بھی واضح کر دیا گیا۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ زندگی کے سفر میں شوہراور بیوی گاڑی کے دو پہیوں کی مانند ہیں۔ اور دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں

شادی دو افراد کا نہیں بلکہ دو خاندانوں کے ملاپ کا نام ہے۔ اس لیے شریک حیات کا انتخاب انتہائی سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ اس کام میں جلد بازی نہ کی جائے بلکہ شریک سفر کے انتخاب کے لیے مناسب وقت حاصل کیا جائے کیونکہ مناسب انتخاب ہی کامیاب ازدواجی زندگی کی بنیاد ہوتی ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ لوگ شریک حیات کے انتخاب کے لیے اپنی شخصیت سے مختلف افراد کو ترجیح دیتے ہیں۔مگر ایک تحقیق میں دعوی کیا ہے کہ یہ خیال غلط ہے، درحقیقت لوگ لاشعوری طور پر ایسے شریک حیات کو ترجیح دیتے ہیں جو شخصیت کے اعتبار سے ان سے ملتا جلتا ہو۔

Sharike Hayat Ka Intakhab

Sharike Hayat Ka Intakhab
Image Source:i stock

تحقیق میں بتایا گیا کہ درحقیقت جوڑے بتدریج ملتی جلتی شخصیت کے مالک نہیں بنتے بلکہ عموماً شریک حیات کے انتخاب میں ہی اس چیز کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔محققین نے کہا کہ اس رجحان میں جارحیت ایک الگ بات ہے۔۔انہوں نے کہا کہ اگر ایک فرد تشدد پسند ہو تو دوسرا فرد کا ردعمل بھی ممکنہ طور پر ویسا ہی ہوگا اور وقت کے ساتھ وہ بھی زیادہ جارحیت پسند ہوجائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ کی شادی کسی ایسے فرد سے ہوتی ہے جس کی شخصیت یا شخصی رویے آپ سے ملتے جلتے ہوتے ہیں تو اس بات کا امکان بڑھ جاتا ہے کہ وہ عادات بچوں میں بھی منتقل ہوجائیں۔

ماہر کنسلنٹ ڈاکٹر ولا عزام نے  کہا کہ مستقبل کے فیصلوں میں سب سے اہم درست اور مناسب فیصلہ شریک حیات کا انتخاب ہے جس کے لئے مکمل طور پر سنجیدگی اختیار کرنا ضروری ہے ۔اس حوالے سے کسی بھی فیصلے پر پہنچنے سے پہلے ضروری ہے کہ حتمی فیصلہ کرنے سے قبل سوچ بچار کے لئے کافی وقت لیا جائے۔

ایک ماہر تعلقات و نفسیات کا کہنا ہے کہ

“عورتوں میں جہاں کشش اہم ہے وہیں چند دیگر خصوصیات بھی شامل ہیں، جیسے خوش مزاجی، دوسروں کے ساتھ شفقت، اعتماد اور محبت وغیرہ”

Sharike Hayat Ka Intakhab
Image Source:House of Pakistan

شریک حیات کا انتخاب

 شادی دو انسانوں کے بندھن کا نام ہے اور اس بندھن کو قائم کرنے کے لیے سب سے پہلے مردکے لیے عورت اور عورت کے لیے مرد کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ شریک حیات کا انتخاب ایک اہم ترین انتخاب ہوتا ہے اس لیے جذبات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہر زاویے سے اس بارے میں سوچا جائے تاکہ مستقبل میں کسی قسم کے اختلافات اور مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

عمر کا فرق

ڈاکٹر ولا عزام اس امر پر زور دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ کسی بھی جوڑے کے لیے عمر کا فرق بے حد اہم ہوتا ہے۔ بہتر ہو گا کہ فریقین میں عمر کا فرق بہت زیادہ نہ ہو یا اسے یوں کہہ لیں کہ فرق 12 برس سے زائد نہ ہو، تاہم مثالی عمر کے فرق کے لیے کسی حد کا تعین کرنا دشوار کام بھی ہے۔ کیونکہ بعض اوقات یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ عمر میں زیادہ فرق کے باوجود بھی فریقین میں مثالی مفاہمت قائم ہوئی تاہم یہ معاملہ مختلف شخصیات اور ذہنی ہم آہنگی سے تعلق رکھتا ہے۔

تعلیمی مناسبت یا علمی مساوات

ماضی میں تحقیق سے ثابت ہوچکا ہے کہ تعلیم یافتہ افراد کی مجموعی صحت دیگر کے مقابلے میں بہتر ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے مگر اس تحقیق میں بتایا گیا کہ شریک حیات کی تعلیم بھی آپ کو صحت مند رکھ سکتی ہے۔

اس کے برعکس اگر فریقین میں عدم مطابقت ہو تو اس صورت میں ایک فریق جو نسبتاً علمی میدان میں کافی کم ہو، وہ کسی طرح کے احساس کمتری کا شکار ہو سکتا ہے جس سے باہمی تعلقات میں دوری اور کشیدگی میں اضافہ ہونے کا امکان ہوتا ہے۔

تعلیمی میدان میں ہم آہنگی فریقین کے مابین مفاہمت اور صحت مندانہ ماحول تخلیق کرنے میں کافی اہم ثابت ہوتی ہے۔ اس صورت میں فریقین کو ذہنی ہم آہنگی ہونے پر باہمی افہام و تفہیم اور مسائل و اختلافات کو حل کرنے میں کافی آسانی ہوتی ہے۔

مرد زیادہ تر ایسی خواتین کو بطور شریک حیات منتخب کرتے ہیں جو تعلیم یافتہ ہوں۔ اور آج کل تو برسر روزگار خواتین کو برتری دی جاتی ہے۔ یعنی آج کا مرد ایسی خاتون کو پسند کرتا ہے جس کی صلاحیتیں صرف گھریلو امور تک محدود نہیں۔

شوہر یا بیوی کی تعلیم شریک حیات کی مجموعی صحت پر مثبت انداز سے اثرات مرتب کرتی ہے جس سے عندیہ ملتا ہے کہ زیادہ تعلیم یافتہ شریک حٰات کو زندگی کا حصہ بنانا چاہیے۔

خود اعتمادی

مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ مثبت سوچ رکھنے والا شوہر یا بیوی اپنے شریک حیات کی ذہنی صحت پر بھی مثبت اثرت مرتب کرتا ہے اور عمر بڑھنے کے ساتھ الزائمر کے مرض، دماغی تنزلی اور ڈیمنشیا(بھولنے کی بیماری) سے تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ ہم اپنی زندگی کا زیادہ تر وقت شریک حیات کے ساتھ گزارتے ہیں،جب ہمارا شریک حیات مثبت سوچ اور صحت مند ہوتا ہے، تو اس سے ہماری زندگی کے لیے بھی اچھے نتائج سامنے آتے ہیں۔

مذہب اور اخلاق

زندگی میں شریک حیات کے انتخاب میں مذہب اور اخلاق سب سے اہم اور بنیادی پوائنٹ ہے کیونکہ ازدواجی زندگی کی شروعات صحیح بنیاد پر تعمیر ہونا ضروری ہےاگر کسی عمارت کی بنیاد ہی غلط ہو تو وہ گر جاتی ہے۔ اس لیے مذہب، اخلاق اور رویہ ازدواجی زندگی کے لیے بہت اہم ہوتا ہے جس کا درست انتخاب انتہائی ضروری ہے۔ اگر ایک مرد اپنے مذہبی فرائض ادا کرنے کا پابند نہیں اور اس کے اخلاق بھی درست نہیں تو وہ اچھا شوہر یا شریک حیات ثابت نہیں ہو سکتا۔

اب اس تحقیق کو آگے بڑھایا گیا اور نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ جوڑوں کے سیاسی اور مذہبی نظریات، تعلیمی لیول اور آئی کیو کافی حد تک ملتے جلتے ہوتے ہیں۔ مگر یہ بھی دریافت ہوا کہ جوڑے ہر پہلو سے ایک دوسرے جیسے نہیں ہوتے، قد، وزن، طبی مسائل اور شخصی عادات میں کسی حد تک فرق ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ جوڑوں کا ایک دوسرے جیسا ہونے کا اثر آنے والی نسلوں میں بھی منتقل ہوتا ہے، یعنی سماجی اور دیگر عادات بھی آنے والی نسلوں میں منتقل ہو جاتی ہیں۔

خود اعتمادی

صرف خواتین ہی نہیں مردوں کو بھی عورت کی خود اعتمادی بہت متاثر کرتی ہے۔ اور وہ ایک پر اعتماد خاتون کو اپنے شریک حیات اور جیون ساتھی کے روپ میں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ جو نہ صرف زندگی میں پیش آنے والی مشکلات کا خود اعتمادی سے مقابلہ کرے۔ بلکہ چھوٹے موٹے مسائل سے خود نبرد آزما ہونے کی صلاحیت رکھتی ہو۔

شگفتہ مزاجی

یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ سرد مزاج یا تلخ مزاج انسان کو کوئی پسند نہیں کرتا، خواہ وہ مرد ہو یا خاتون۔ عورتوں پر اس حوالے سے زیادہ ذمہ داری ہوتی ہے۔ کہ انہوں نے والدین کا گھر چھوڑ کر شوہر کے ساتھ اس کے گھر اور گھر والوں کے ساتھ رہنا ہوتا ہے۔اگر وہ خوش مزاج نہیں ہو گی اور اس کا رویہ شوہر یا گھر والوں کے ساتھ سرد ہو گا۔ تو نباہ مشکل ہو جاتا ہے۔

اگرچہ مرد باطن کی بجائے ظاہر سے جلد متاثر ہوتے ہیں۔ لیکن خوبصورتی کی ساتھ ساتھ خوب سیرتی کی تلاش میں بھی ہوتے ہیں۔ ایک ایسی خاتون جو احساس کرنے والی اور خیال رکھنے والی ہو۔ مرد کے دل میں جلد اپنا گھر کر لیتی ہے۔ اور مرد جلد یا بدیر ایسی عورت کی محبت میں گرفتار ہو ہی جاتا ہے۔

شادی کے بعد عورت کے لئے شوہر اور اس کے گھر والے ہی اس کی فیملی ہوتے ہیں۔ وہ اپنی خوب سیرتی، بے لوث محبت، وفاداری اور شگفتہ مزاجی سے گھر کو جنت کا نمونہ بنا سکتی ہے۔

پابندی اور احساس ذمہ داری

احساس ذمہ داری اور پابندی وہ صفات ہیں جو کسی بھی شخص میں پائی جانا ضروری ہوتی ہیں۔ کیونکہ شادی کے بعد اگر کوئی بھی فریق اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں کرے گا تو زندگی کی گاڑی چلنا بہت مشکل ہوجائے گی۔ عام طور پر باہمی اختلافات بھی ان ہی وجہ سے بڑھ جاتے ہیں۔

وہ مرد جو اپنی ذمہ داری کا مکمل احساس رکھتا ہے اس کے سامنے اہداف واضح ہوتے ہیں اور وہ انہیں سامنے رکھتے ہوئے اپنی منصوبہ بندی کرتا ہے۔ ایسے شخص میں میانہ روی اور تدبر بھی نمایاں ہوتا ہے۔ کسی بھی اختلاف پر وہ فہم و فراست سے کام لیتے ہوئے مثبت سوچ کو مقدم رکھتا ہے۔

احساس ذمہ داری صرف ایک مرد کی ہی خصوصیت نہیں۔ بلکہ اس خصوصیت کا ہونا ایک عورت کی کشش میں بھی اضافہ کرتا ہے۔ مرد گھر سے باہر کی ذمہ داریوں کو نباہ کے جس وقت گھر آئے۔ اسے صاف ستھرے بچے، سمٹا ہوا گھر، مسکراہٹیں بکھیرتی شریک حیات نظر آئے۔ تو اس کی ذہنی اور جسمانی تھکاوٹ کافی حد تک کم ہو جاتی ہے۔ اس لئے مرد ہمیشہ ایسی عورت کی خواہش کرتا ہے جو اپنی ذمہ داریاں سمجھتی ہو۔ اور بغیر کہے انہیں پورا کرنے کی اہلیت رکھتی ہو۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ذمہ داربیوی مرد کے لئے نہایت دلکش ہوتی ہے۔

مرد ہو یا عورت جو بھی احساس ذمہ داری کا حامل ہوتا ہے وہ ہمیشہ نرمی سے معاملات کو آگے لے کر جاتا ہے جس سے مشکل حالات میں بہتر فیصلے سامنے آتے ہیں۔

مضبوط شخصیت

ایک مضبوط شخصیت کا حامل مرد خانگی امور کو بہتر طور پر لے کر چل سکتا ہے۔ مرد جو کہ سربراہ خانہ ہوتا ہے اس کا کمزور شخصیت کا حامل ہونے کی صورت میں خانگی معاملات بہتر طور پر نہیں چلتے بلکہ اس کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

 سماجی فرق

کسی بھی جوڑے میں بہت زیادہ سماجی فرق ہونا بھی مناسب نہیں ہوتا جس سے عام طور پر فریقین میں ذہنی ہم آہنگی و مفاہمت پیدا نہیں ہوتی۔

سماجی طور پر نمایاں فرق ہونے کی صورت میں پیدا ہونے والے اختلافات بعد ازاں بڑی مشکلات کا باعث بن جاتے ہیں اور رشتہ ناکامی پر ختم ہو جاتا ہے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ شریک حیات کا انتخاب کرتے ہوئے معاشرتی اعتبار سے برابری ہو یا فرق بہت زیادہ نہ ہو۔

توقعات

رشتے کے انتخاب میں لڑکی کی جانب سے بھاری بھرکم جہیز اور لڑکے کی جانب سے بھاری تنخواہ، گھر وغیرہ جیسی مادی توقعات کے بجائے اچھے اخلاق ، بہترین رویے،اعلیٰ ظرفی، خوفِ خدا اور قربانی کو پیش نظر رکھنا چاہیے ۔اگر رشتے کی بنیاد حد سے زیادہ توقعات پر ہو تو وہ بھی پائیدار نہیں ہوتے اور بہت جلد اس میں دراڑیں پڑجائیں گی۔

توقعات سے پرہیز یہ ازدواجی زندگی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔کیونکہ اسی بنیاد پر میاں بیوی ایک دوسرے کابھرپور ساتھ دے سکتے ہیں، خوش وخرم رہ سکتے ہیں اور اس خوبصورت تعلق سے نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی نفع مند ثابت ہوسکتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ کسی رشتے میں یہ چیز نہ ہوتو پھر بھی میاں بیوی میں اتنا ظرف ضرور ہونا چاہیے کہ اختلاف کے باوجود بھی ایک دوسرے کا احترام کریں اور ایک دوسرے کو برداشت کریں ۔یہ چیز یقینا ان کی شادی شدہ زندگی میں سکون لانے کا باعث بنے گی۔

ذہنی ہم آہنگی

سوچ میں ہم آہنگی نہ ہونے یا مکمل طور پر اختلاف ہونے کی صورت میں جوڑے کے درمیان بڑی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس صورت میں ہر فریق اپنی سوچ کو دوسرے پر لاگو کرنے کے لیے اپنی مناسبت سے دلائل سامنے رکھتے ہوئے یہ تصور کرے گا کہ اس کے دیے ہوئے دلائل کو تسلیم کیا جائے، حالانکہ یہ ضروری نہیں کہ جو دلائل دیے گئے ہیں وہ حقیقت میں درست بھی ہوں اور یہی نکتہ باہمی اختلاف کی وجہ بن سکتا ہے۔

شادی کے لیے انتخاب کرتے وقت حسن اور خوبصورتی کو ضرور مدِ نظر رکھیں لیکن یہ بات بھی یادرکھیں کہ یہ زندگی کا ایک اہم ترین فیصلہ ہے ۔اس میں جذبات کا استعمال 20فیصد جبکہ باقی 80فیصد عقل و شعور کا استعمال ہوناچاہیے ۔

لڑکی کا انتخاب کرتے وقت اس بات کو بھی دیکھنا چاہیے کہ یہ ایک سگھڑ بیوی، بہترین ماں اوراچھے انسان کے طورپر کیسی ہوگی؟

اسی طرح لڑکے کا انتخاب کرتے وقت بھی اس کی احساسِ ذمہ داری ، خیال رکھنے اور قربانی دینے کو ترجیح میںرکھنا چاہیے ۔اس معیار پر بنائے گئے رشتے تادیر چلتے ہیں اور میاں بیوی خوش و خرم زندگی بسر کرتے اس کے علاوہ نرم دل مرد سب سے بہتر ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ اپنے خاندان سے محبت کرتے ہیں اور سب کا خیال بڑھ چڑھ کر رکھتے ہیں۔ہیں۔


Like it? Share with your friends!

0
Annie Shirazi

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *