سموسے بیچنے والا بچہ اب کہاں ہے؟


0

علم حاصل کرنا فرض ہے اور ایسا کون ہوگا جو نہ چاہتا ہو کہ ان کا بچہ اچھا پڑھ لکھ جائے ۔مگر بد قسمتی سے آج کل اپنے بچوں کو پڑھانا بہت مشکل ہو گیا ہےاس مہنگائی کے دور میں لوگ جتنی مشکل سے گزر بسر کررہے ہیں ان لوگوں کے لئے اپنے بچوں کو پڑھانا ایک دیوانے کا خواب ہی ہے۔کیونکہ کہ اس مہنگائی میں بچوں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلانا مشکل ہے تو پھر تعلیم کا نمبر تو بعد میں ہی آتا ہے۔۔

Zahid Samosa Boy

 لیکن کچھ بچوں کو پڑھنے کا بہت شوق ہوتا ہے اور وہ اپنے  بل بوتے پہ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں  اور اپنے گھر والوں کے لئے چھوٹی عمر سے ہی کمانا شروع کردیتے ہیں ایسا ہی ایک بچہ آپ کو یاد ہوگاجس کا شماربا ہمت بچوں میں ہوتا ہے  وہ باہمت بچہ  زاہد  ہے جو آج سے تقریبا4سال پہلے سڑک کنارے سموسہ فروخت کرتا تھا۔

Zahid Samosa Boy

کچھ سال پہلے  ایک پوسٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں دیکھا گیا کہ زاہد اب اسکول جانے لگا ہے۔

کراچی کی سڑکوں پر سموسہ بیچنے والا بچہ زاہد جس کی دو سال قبل ویڈیو وائرل ہوئی تھی، آج وہ کام کر رہا ہے جس کا وہ حق رکھتا ہے۔

سوشل میڈیا پر زاہد کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد باسم صاحب جو ایک اسکول کے پرنسپل ہیں انہوں نے اس بچے کی تعلیم کی ذمہ داری اٹھانے کا اعلان کیا تھا اور یہ بچہ چھٹی جماعت میں پڑھنے لگ گیا تھا اور ساتھ ساتھ خوب کامیابیاں بھی سمیٹ رہا تھا۔

 اب  وہ سموسے بیچنے والا لڑکا ‘زاہد’ اب 8ویں جماعت میں ہے،ا سکول پرنسپل کی تعلیم کی ذمہ داری لینے کے بعد بطور ہیڈ بوائے تعلیمی میدان میں کامیابی حاصل کر رہا ہے

زاہد، سموسے بیچنے والا لڑکا جس کی ویڈیو فروری 2020 میں سوشل میڈیا پر کا فی وائرل ہوئی تھی ، اب اس بچے نے کامیابی کی طرف ایک اورمثبت قدم اٹھایا ہے۔ پرائیویٹ اسکول کے پرنسپل باسم احمد فریدی نے زاہد کی تعلیمی کامیابی کے بارے میں ایک حالیہ اپ ڈیٹ شیئر کی، جس میں ایک انسانی  زندگی کےحالات  بدلنے میں سوشل میڈیا کی طاقت کو اجاگر کیا گیا۔

زاہد جو کچھ سال پہلے اپنے   بڑے خاندان کی کفالت  کے لئے سٹرک پر سموسے بیچتا تھا باسم آفریدی نے اس بچے پر خصوصی توجہ دی اور زاہد کی  تعلیم کی ذمہ داری اٹھانے کا فیصلہ کیا۔

 آفریدی نے عارضی طور پر  مالی امداد کے بجائے زاہد کو  تعلیم کی اخراجات اٹھانے  پر زور دیا، اور یہ فیصلہ زاہد کے لیے تبدیلی کا باعث ثابت ہوا ہے۔

دسمبر 2023 کے آخری ہفتے میں، زاہد آٹھویں جماعت میں ہے اور اپنی پڑھائی میں ترقی کر رہا ہے، اس کے علاوہ ، وہ  اسکول کی تعلیم کے علاوہ   زاہد  ہم نصابی سرگرمیوں  میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے۔

 زاہد نہ  صرف تعلیمی لحاظ سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے بلکہ اسکول کی اسٹوڈنٹ کونسل میں ہیڈ بوائے کے طور پر بھی کام کرتا ہےوہ  اپنے اندر نئے اعتماد اور قائدانہ صلاحیتوں کا استعمال بھی  کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔

آفریدی نے واضح کیا کہ اسکول زاہد کی تعلیم کو مکمل طور پرا سپانسر کررہا ہے، جس میں کورس کی فیس، اسٹیشنری، نوٹ بک، اور پک اینڈ ڈراپ فیس سمیت تمام متعلقہ اخراجات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ زاہد کے دو چھوٹے بھائی بھی اس ہی اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

آفریدی نے اس بات پر زور دیا کہ اگر وہ یہ کام کررہے ہیں تو یہ  کوئی خیراتی عمل یا زکوٰۃ/صدقہ کی ایک شکل نہیں ہے بلکہ ایک نجی اسکول  پرنسپل  کی حیثیت سے انکا فرض ہے۔ انہوں نےمذید وضاحت کی ہے  کہ سندھ تعلیمی بورڈ کے ضوابط کے مطابق رجسٹرڈ پرائیویٹ اسکول 5 فیصد طلباء کو مفت پڑھانے کے پابند ہیں۔

آفریدی نے دوسرے نجی اسکولوں پر زور دیا کہ وہ اس کی پیروی کریں اور مستحق طلباء کو تعلیم کی پیشکش کرکے معاشرے میں اپنا حصہ ڈالیں۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر زاہد کی کامیابیوں کو مثبت تبدیلی کی ترغیب دینے اور دوسرے اسکولوں کی حوصلہ افزائی کے لیے شیئر کیا۔

آفریدی نے یہ بھی کہا ہے کہ جب تک  زاہداسکول میں ہے اس  کی تعلیمی ضروریات پوری ہوتی رہے گی ،                                  آ فریدی نےمزید  امید ظاہر کی   ہےکہ زاہد آگے بھی اپنی تعلیمی قابلیت سےآگے بڑھے گا اور کوئی نہ کوئی یونیورسٹی  اسے اپنے مطلوبہ شعبے میں اسکالرشپ کی پیشکش  ضرور کرے گی۔ زاہد کے کاروباری جذبے اور اس کے پہلے سڑک کے کنارے کاروبار کے ذریعے سیکھے گئے اسباق کو دیکھتے ہوئے،آ فریدی کا خیال ہے کہ زاہد مستقبل میں ایک کامیاب انسان کے طور پر ابھرے گا۔

زاہد کی کہانی مثبت خیالات کے طور پر کام کرتی ہے، جو تعلیم کے تبدیلی کے اثرات اور سماجی تبدیلی کے امکانات کو واضح کرتی ہے جونوجوانوں کو اپنے خوا ب پورے کرنے اور محنت کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔


Like it? Share with your friends!

0
Annie Shirazi

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *