شہید شوہر کی یاد میں دل کی گہرائیوں سے لکھا گیا خط


0

پاک سر زمین اور اس کے باشندوں کی حفاظت کی خاطر پاکستان کی مسلح افواج لائق ستائش ہیں، پاکستانی قوم جتنی عزت ایک فوجی جوان کی کرتی ہے، اتنی ہی پذیرائی فوجی جوانوں کے خاندانوں کی بھی کرتی ہے۔ حال ہی میں کیپٹین عاصم کریم شہید کی بیوہ کا ایک خط سوشل میڈیا میں وائرل ہوا تاہم جس نے بھی اس خط کو پڑھا اس کی آنکھ نم ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔

ماضی کو کھوجتے ہوئے شہید کی بیوہ لکھتی ہیں دو فروری 2010 کو میں نے شدید بخار، بہتی ناک، اور کچھ چھپی ہوئی بے سکونی کی حالت میں آخری مرتبہ عاصم کو ملتان سے الوداع کیا، عاصم ان دنوں ملتان میں چھٹیاں گزار رہے تھے اور وہ وہیں ملتان میں ہی تعینات تھے۔ تاہم انھیں حکم ملا کہ وہ ایک فوجی مشن کو فاٹا لے کر جائیں کیونکہ وہ کوبرا گن شپ کے پائلٹ تھے۔

روانگی سے ایک رات قبل جب میں عاصم کا سفری بیگ تیار کر رہی تھی تو انھوں نے کہا کہ اس دفعہ میرا بیگ ہلکا رکھنا، اس میں زیادہ کپڑے نہ رکھنا کیونکہ میں بہت جلد واپس آجاوں گا۔ وہ بالکل ٹھیک کہہ رہے تھے کیونکہ وہ 10 فروری کو گھر واپس آگئے تھے مگر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہونے کے لیے۔ وہ پاکستانی پرجم میں لپٹے ہوئے بہت سکون کی نیند سو رہے تھے۔

Image Source: Twitter

ان کی شہادت سے تین روز قبل 7 فروری کو میں نے ٹیکسٹ میسیج کے ذریعے ان سے پوچھا کہ آپ اپنے فوجی لباس کے حوالے سے اتنے جذباتی کیوں ہیں تو ان کا جواب اسی روز 2 بجکر 23 منٹ پر میری توقعات کے مطابق موصول ہوا، انھوں نے کہا کہ میں اپنے وطن، فوج، ایوی ایشن، گروپ ، اور اسکوارڈن سے وفادار ہوں اور یہ ایک ادارہ نہیں ہے بلکہ لوگ ہیں جو اسے بناتے ہیں۔ اور انھوں نے ثابت بھی کیا، ایک سچے محب وطن نے ملک کی خاطر اپنی جان قربان کر دی۔ مجھے فخر ہے ان کی بیوی ہونے پر، عاصم، میں آپ کو سلام پیش کرتی ہوں، میں ہر آنے والے دن آپ کو گذرے دن سے زیادہ یاد کرتی ہوں۔ مگر آپ نے مجھے شہید کی بیوہ ہونے کا اعلی اعزار ہمیشہ کے لیے عطا کیا۔ کیپٹین عاصم کریم خان شہید (تمغہ بسالت) کا تعلق مالاکنڈ خیبر پختونخواہ سے تھا وہ 41 سگنلز بیٹالین میں بھرتی ہوئے۔

بارہ اگست 2006 کو ہماری شادی ہوئی، شادی کے کچھ عرصے بعد ہی مجھے پتہ چلا کہ مجھے کینسر ہے۔ اس مشکل وقت میں وہ میرا سب سے بڑا سہارا تھے، انھوں نے ہر طرح سے میرا خیال رکھا۔ وہ مجھ سے اکثر کہا کرتے تھے کہ اس مشکل کا ایک بہادر فوجی کی طرح مقابلہ کرو، اور پھر میں نے کیمیو تھییراپی کا کٹھن تجربہ برداشت کیا۔ وہ بیماری ہم دونوں کو ایک دوسرے کے مزید قریب کرنے کا باعث بنی۔

ٹویٹ

عاصم کے ساتھیوں نے بتایا کہ شہادت والے دن عاصم کو وادی تیرہ، خیبر ایجنسی، میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو تباہ کرنے کا مشن سونپا گیا تھا اور انھوں نے ہمیشہ کی طرح مسکراتے چہرے کے ساتھ اس ذمہ داری کو قبول کیا اور ہیلی کاپٹر اڑا کر دہشت گردوں کے ٹھکانوں تک پہنچ گئے جہاں انھوں نے گولے برسائے، تاہم اسی دوران ان کا طیارہ لاکٹ لانچر کی زد میں آیا اور اس طرح وہ عزت و احترام کے اعلی مرتبے پر فائز ہوئے۔

دل گرفتہ بیوی اپنے شوہر کی یاد میں لکھتی ہے، پیارے عاصم، میں نے زندگی بھر فروری کے وسط میں برف باری نہیں دیکھی تھی مگر جس دن دیکھی وہ آپ کی تدفین کا دن تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے پورے مالاکنڈ دویژن پر آسمانوں سے سفید بھول برس رہے ہوں۔

آپ نے ہمیشہ شہادت کی خواہش کی اور اللہ نے تحفے کے طور پر آپ کی اس خواہش کو پورا کیا۔ جب بھی میں نے آپ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے متعلق پوچھا تو آپ کہا کرتے تھے ہم فوجی عہد لیتے ہیں کہ ہم مادر وطن کے لیے لڑیں گے اور ہم آخری سانس تک ایسا کریں گے۔

پیارے عاصم، کسی نے بھی آپ کو بھلایا نہیں ہے۔ ہر موقع پر مجھے دعوت دی جاتی ہے اور وہ مجھ سے آپ کی اور آپ کی قربانیوں کی باتیں کرتے ہیں۔ پاک فوج میری دیکھ بھال کر رہی ہے اور ہر مرحلے پر میری عزت افزائی کی جاتی ہے۔ یہ وہ برتاو ہے جو آپ کی فوج شہدا کے خاندانوں کے ساتھ کر رہی ہے۔ ہمیں پاک فوج پر فخر ہے اگرچہ کہ آپ اب خاکی وردی نہیں پہنتے۔

شہداء قوم کا سچا فخر ہوتے ہیں، وہ اپنی جان قربان کرتے ہیں تاکہ ہم جی سکیں۔ جب آپ ہمارے ساتھ ہوتے تھے تو میں نے ہمیشہ اس پر فخر کیا۔ مگر میں کیپٹین عاصم کریم خان شہید (تمغہ بسالت) کی بیوہ ہونے پر زیادہ فخر کرتی ہوں۔ آپ میرے شوہر تھے، آپ میرا فخر ہیں۔

)از طرف : زوجہ کیپٹین عاصم کریم خان شہید (تمغہ بسالت


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *