کوئٹہ: حراست کے دوران پولیس اہلکاروں کا خواتین سے نامناسب روئیہ


0

کوئٹہ پولیس کے اہلکاروں کی شرمناک حرکت، پیر کو شہر کے علاقے توغی روڈ پر خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ خواتین پر تشدد کرنے والے اہلکاروں کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہونے کے بعد جس بوزیر اعلی بلوچستانٰ عبدالقدوس بزنجو نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق وزیراعلی عبدالقدوس بزنجو نے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) کو واقعے میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف فوری کارروائی کا حکم جاری کردیا ہے۔ انہوں نے پولیس چیف کو اہلکاروں کو فوری طور پر معطل کرکے ابتدائی انکوائری رپورٹ طلب کرلی ہے۔

Image Source: File

اس موقع پر وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ شہریوں، خاص طور پر خواتین، پولیس کو عزت دینی چاہیے،”۔ اگر خواتین کی گرفتاری ضروری تھی تو لیڈی پولیس افسر کو کارروائی کرنی چاہیے تھی۔ پولیس کے رویے کو “بالکل ناقابل قبول” قرار دیتے ہوئے عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ “پولیس پر عوام کا اعتماد بحال کرنا ضروری ہے۔”

دوسری جانب ڈپٹی آئی جی پی سید فدا حسن شاہ نے بتایا کہ دو پولیس افسران سب انسپکٹر عبدالنوید اور گن مین غلام رضا کو معطل کر دیا گیا ہے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ آئی جی پی نے مزید کہا کہ تین لاپتہ خواتین کے والدین نے قائد آباد پولیس اسٹیشن میں ان کے بارے میں رپورٹ درج کرائی تھی۔

سید فدا حسن شاہ کا کہنا تھا کہ پیر کی شام کو والدین نے اپنی بیٹیوں کو صوبائی دارالحکومت کے علاقے توغی روڈ میں دیکھا، لہذا پولیس انہیں حوالے کرنے کے لیے موقع پر پہنچ گئی۔ ان کا مزید کہا، “ہاں، وہاں لیڈی پولیس افسران کو ہونا چاہئے تھا، ڈیوٹی پر موجود اہلکاروں نے غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔”

وائرل ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح مرد پولیس افسر ایک خاتون کو پکڑ رہے ہی، اور اسے پولیس کی گاڑی میں منتقل کر رہے ہیں۔ بعدازاں دوسری خاتون کو بھی گاڑی میں منتقل کیا جاتا ہے۔ تاہم جب وہ مزاحمت کرتی ہے تو اہلکار اسے شدید تشدد کا نشانہ بناتا ہے اور اسے اندر دھکیل دیتا ہے۔ حالانکہ تیسری خاتون زیادہ مزاحمت نہیں کرتی، لیکن اسے بھی پولیس موبائل کے قریب دھکیل دیا جاتا ہے۔

جوں کوئٹہ میں مرد پولیس اہلکاروں کو خواتین کو گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنانے کی ویڈیو وائرل ہوتی ہے، تو انٹرنیٹ مارفین کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آتا ہے اور لوگ پولیس کے اس رویئے کی بھرپور مذمت کرتے دیکھائی دیئے۔

واضح رہے کہ پاکستان کے قوانین کے تحت کسی بھی خاتون کو لیڈی پولیس کانسٹیبل کی موجودگی کے بغیر گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ یہی نہیں بلکہ ایک خاتون مشتبہ شخص کی تلاشی بھی مرد پولیس افسر نہیں لے سکتا ہے۔

یاد رہے کچھ عرصہ قبل صوبہ پنجاب کے علاقے کھڈیاں سے ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی، جس میں دیکھا گیا تھا کہ ایک پولیس آفیسر ایک خاتون کو وحشیانہ انداز میں اسکے کمسن بچے کے سامنے تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے۔

واضح رہے کچھ عرصہ قبل قصور کے تھانے منڈی عثمان والا کی حدود سے 16 سالہ لڑکی کو اغواء کے زیادتی کا نشانہ بنانے کا افسوسناک واقعہ سامنے آیا تھا۔ جس پر اہلخانہ نے تھانے میں مقدمہ درج کرانے کا فیصلہ کیا۔ متاثرہ لڑکی اور والد تھانے گئے تو ڈیوٹی موجود اے ایس آئی عرفان نے ناصرف متاثرہ لڑکی کے والد سے رشوت طلب کی بلکہ اس کے باوجود کئی روز تک اس سے تھانے کے چکر لگواتے رہے۔ بدبخت اور بےشرم پولیس اہلکار کا اس پر بھی دل نہ بھرا تو اس نے مجرمان کو پکڑنے اور انصاف دلوانے کے بجائے متاثرہ لڑکی کے والد کو تھانے کا فرش دھونے کے کام پر مامور کردیا، مجبور باپ بیٹی کے انصاف کے لئے اس ظلم وبربریت کو بھی برداشت کرتا رہا تھا۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *