پولیس میں نوکری کی سزا، آنکھوں کی بینائی چھین لی گئی


-1

زندگی میں خوابوں کو حقیقت بنانا سب ہی کا خواب ہوتا ہے، کہتے ہیں خوش قسمت ترین ہوتے ہیں وہ لوگ جو اپنے خوابوں کو پورا کرتے ہیں، انہی چند خوش قسمت لوگوں میں ایک نام کھتیرہ نامی لڑکی کا بھی ہے، جس کا تعلق افغانستان کے شہر غزنی سے ہے۔ جس نے اپنے بلند حوصلوں کے ساتھ اپنے خوابوں کو حقیقت بنایا تاہم کچھ چھوٹی اور قدامت پسندی والی سوچ کے حامل لوگوں کو یہ چیز ناگوار گزری اور انہوں نے بزدلانہ کارروائی کرتے ہوئے کھتیرہ سے اس کی آنکھیں چھین لیں۔

تفصیلات کے مطابق افغانستان کے شہر غزنی میں پیش آیا دہشتگردی کا افسوسناک واقعہ جہاں خاتون پولیس اہلکار ڈیوٹی ختم کرکے پولیس اسٹیشن سے باہر نکلیں تو وہ کیا دیکھتی ہیں کہ ایک موٹر سائیکل پر 3 افراد آتے ہیں، ان پر گولیاں چلاتے ہیں اور آنکھوں پر چاقو کے متعدد وار مار کر فرار ہوجاتے ہیں۔

Image Source: Reuters

بعدازاں اس واقعے کے بعد انہیں اسپتال منتقل کیا جاتا ہے، جہاں ہوش میں آنے کے بعد وہ ڈاکٹروں سے سوال کرتی ہیں کہ آخر وہ کچھ دیکھ کیوں نہیں سکھ رہیں ہیں؟ جس پر ڈاکٹر جواب دیتے ہیں کہ ان کی آنکھوں پر زخموں کی وجہ سے ابھی بھی پٹی بندھی ہوئی ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس وقت مجھے اندازہ تھا کہ مجھ سے میری آنکھیں چھین لی گئی ہیں۔

اس دوران کھتیرہ اور مقامی انتظامیہ نے اس واقعے کا الزام طالبان پر عائد کیا ہے تاہم طالبان نے واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے اس واقعے میں اپنے والد کے ملوث ہونے کا عندیہ دیا، ان کے مطابق حملہ آوروں نے ان کے والد کی ایماء پر سب کیا، کیونکہ ان کے والد ان کے گھر سے باہر کام کرنے کے خلاف تھے۔

کھتیرا کے مطابق اس واقعے میں انہوں نے محض اپنی آنکھیں ہی نہیں کھوئی ہیں بلکہ انہوں نے اپنے خوابوں کو بھی کھویا ہے، جس کے لئے انہوں نے ایک طویل عرصہ محنت اور جدوجہد کی تھی۔ کیونکہ انہوں نے کچھ ماہ قبل ہی بطور آفیسر افغان پولیس میں شمولیت اختیار کی تھی، حملے سے قبل وہ غزنی پولیس کی کرائم برانچ میں خدمات سرانجام دے رہیں تھیں۔

Image Source: Reuters

رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کھتیرا نے مزید بتایا کہ میری خواہش تھی، کہ میں کم از کم ایک سال پولیس محکمہ میں خدمات سرانجام دوں، اگر یہی سب کچھ بعد میں ہوتا تو شاید تکلیف تھوڑی کم ہوتی، یہ سب کچھ بہت جلدی ہوگیا، میں اپنی ڈیوٹی اور اپنے خوابوں کو محض تین ماہ تک ہی حقیقت میں دیکھ سکی۔

کھتیرا کا مزید کہنا تھا کہ اس کا بچپن سے ہی خواب تھا کہ وہ گھر سے باہر جاکر کام کرے، جس کے لئے اس نے اپنے والد کو کافی عرصے تک منانے کی کوشش کی تاہم والد نے تو نہ کردی البتہ اس دوران شوہر نے خواب کو ناصرف پورا کرنے کی اجازت دی بلکہ اس کا حوصلہ بن کر بھی سامنے کھڑا رہا، لیکن اس دوران اس کے والد نے اسے دھمکی دی کہ وہ کھتیرا کو اس کی مخالفت کرنے پر کبھی معاف نہیں کریں گے۔

کھتیرا کے مطابق اس دوران جب وہ ڈیوٹی پر جایا کرتی تھیں، میں اکثر دیکھتی تھی کہ میرے والد میرا پیچھا کررہے ہیں، جس کے انہوں نے مقامی علاقے میں طالبان سے رابطے شروع کر دیئے اور ان سے کہا کہ مجھے نوکری پر جانے سے روکا جائے۔

اس حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ میرے والد کی جانب سے طالبان کو میری آئی ڈی کارڈ کی ایک کاپی دی گئی جس سے ثابت کیا جاسکے کہ وہ پولیس کے ادارے میں زیر ملازم ہیں، جبکہ وہ پورا دن انہیں بتاتے رہے کہ ان پر حملہ کیا جائے گا، اس دوران وہ ان سے ان کے کام کرنے کی جگہ کا بھی پوچھتے رہے۔

ترجمان غزنی پولیس نے اس خبر کی تصدیق کی ہے کہ کھتیرا پر ہونے والا حملہ طالبان نے کیا ہے، جبکہ اس سلسلے میں پولیس نے کھتیرا کے والد کو حراست میں لے لیا ہے۔

دوسری جانب طالبان ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ اس واقعے سے بالکل باخبر ہے، تاہم یہ ایک خاندانی روش کا معاملہ ہے، جس سے طالبان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

واضح رہے ان دنوں کھتیرا اپنے شوہر اور تین بچوں کے ساتھ کابل میں پناہ لیے ہوئے ہیں، جہاں ان کا علاج جاری ہے۔ انہیں اس بات کی امید ہے کہ بیرون ملک ڈاکٹرز کچھ ایسا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے کہ وہ کسی حدتک دیکھنے کے قابل ہوجائیں۔

اس واقعے کے بعد کھتیرا بہت ڈر چکی ہیں، اگر وہ سوتے ہوئے نیند میں کسی بائیک کی آواز بھی سنتی ہیں تو اچانک ڈر کر اور چونک کر آٹھ جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے قریبی رشتہ داروں سے بھی دوری اختیار کرلی ہے، جن میں ان کی والدہ بھی شامل ہیں، کیونکہ ان کی والدہ کے مطابق کھتیرا اپنی والدہ کی گرفتاری کی وجہ ہیں۔

کھتیرا پر امید ہیں کہ اگر وہ ایک بار پھر سے دیکھنے کے قابل ہوگئیں تو وہ پھر سے اپنی پولیس نوکری کو شروع کریں گی ، محض اس لئے نہیں کہ انہیں پیسوں کی ضرورت ہے بلکہ محض اس لئے کہ یہ ان کا خواب ہے کہ وہ گھر سے باہر کام کرسکیں۔

واضح رہے غیرت کے نام پر خواتین کا قتل ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت ہے، یہ ایک ایسا جرم جس پر سخت سزائیں ہونے کے باوجود اس میں کوئی واضح کمی نہیں آئی ہے، حال ہی میں ایک خاتون فنکاروں کو لاہور میں ان کے بیٹے کی جانب سے محض اس لئے قتل کردیا گیا کہ اسے ان کا کام پسند نہیں تھا۔


Like it? Share with your friends!

-1

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *