پانی سے پھیلنے والی ‘واٹر بورن ڈیزیز’ کیا ہیں؟اور یہ کیسے پھیلتی ہیں؟


0

مون سون بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب کے باعث ملک کا تقریباً ایک تہائی حصہ زیر آب ہے، خاص طور پر سندھ اور بلوچستان میں لوگ اردگرد پھیلے آلودہ سیلابی پانی کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں بلکہ زیادہ تر متاثرہ علاقوں میں تو اس سیلابی پانی میں انسانی فضلے کے ساتھ مردہ جانوروں کی باقیات بھی شامل ہیں، جس کی وجہ سے سیلاب متاثرین میں مختلف وبائی امراض پھوٹنے کا خدشہ ہے۔ اس آلودہ پانی سے پھیلنے والی بیماریوں کو ‘واٹر بورن ڈیزیز’ کہا جاتا ہے،ایسی بیماریوں کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ اگر ان پر بروقت قابو نہ پایا جائے تو یہ تیزی سے پھیلتی ہیں اور بڑی تعداد میں لوگوں کو متاثر کرسکتی ہیں۔لہٰذا، ضروری ہے کہ صحت کی صورتحال پر کڑی نگاہ رکھی جائے اور بیماریوں سے بچاؤ کے لئے ہنگامی اقدامات اٹھائے جائیں۔

Image Source: Unsplash

یہاں ہم آپ کو ان چند بیماریوں سے متعلق آگاہی دینگے جو آلودہ پانی سے پھیلتی ہیں۔

ٹائیفائڈ

Image Source: Unsplash

یہ بخار آلودہ پانی میں پائے جانے والے بیکٹیریا ‘سلمونیلا’ کی وجہ سے ہوتا ہے۔یہ بیماری آلودہ کھانے یا کسی متاثرہ شخص کے فضلے سے ،آلودہ پانی کے استعمال کی وجہ سے ہوتی ہے۔اس کی علامات میں کچھ دنوں تک تیز بخار، پیٹ میں شدید درد، سر درد اور قے آنا شامل ہے۔اس بیماری کی سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اس کا جراثیم علاج کے بعد بھی پتے میں رہ جاتا ہے۔اس بیماری کی تشخیص خون کا نمونہ لے کر ٹیسٹ کے ذریعے کی جاتی ہے۔اس کی احتیاطی تدابیر میں صاف پانی کا استعمال، اچھے اینٹی بیکٹیریل صابن کا استعمال اور بہتر نکاسی آب کا انتظام شامل ہے۔اس کے لئے مختلف اینٹی بایوٹیکس کا استعمال کیا جاتا ہے۔

گیسٹرو

Image Source: Unsplash

ہیضہ یا گیسٹرو مون سون کے موسم میں ہونے والی خطرناک بیماریوں میں سے ایک ہے۔یہ کچھ خطرناک بیکٹیریا کی وجہ سے ہوتا ہے جو خراب کھانوں، گلے سڑے پھلوں، گندے پانی اور حفظان صحت کی کمی کے باعث پھیلتے ہیں۔اس کی علامات میں پیچس اور قے آنا شامل ہے۔ ان کی وجہ سے جسم سے بہت زیادہ پانی ضائع اور پٹھوں میں کھچاؤ پیدا ہوجاتا ہے اورانسانی جسم میں نمکیات کی کمی ہوجاتی ہے۔ایسے مریض کو فوری علاج کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ انسانی جسم میں نمکیات کی کمی موت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

ملیریا

Image Source: Unsplash

ملیریا ان بیماریوں میں سے ہے جس کی وجہ گندے پانی میں پیدا ہونے والی مادہ مچھر ‘انوفیلیس’ ہے۔مون سون کے موسم میں پانی کے جل تھل کی وجہ سے اس مچھر کی پیداوار میں اضافہ ہوجاتا ہے اور اسی کے ساتھ ہی ملیریا کی وبا پھیلنے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

انفلوئنزا

Image Source: Unsplash

انفلوائنزا وائرس ہوا کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے اور ناک، گلے اور پھیپڑوں کو متاثر کرتا ہے اور چونکہ اس کاوائرس کھلی فضا میں موجود ہوتا ہے اس لئے ایک فرد سے دوسرے میں باآسانی منتقل ہوجاتا ہے۔اس بیماری کی نشانیوں میں بہتی ہوئی ناک، جسم اور گلے میں شدید درد اور بخار شامل ہیں، اس وبائی مرض سے بچنے کے لئے اچھی غذا لینا چاہیئے تاکہ جسم کی قوت مدافعت زیادہ مضبوط ہو اور جو اس وائرس کو ختم کرسکے۔

ڈائریا

Image Source: Unsplash

یہ بیماری بھی آلودہ پانی سمیت تالابوں اور سوئمنگ پولز میں موجود پانی سے بھی پھیلتی ہے، اس بیماری سے انسانی جسم کو غذا پہنچانے والے کچھ راستے سخت متاثر ہوتے ہیں، جس سے انسان کو متلی ہونے سمیت پیٹ میں درد رہتا ہے جب کہ اس سے وزن میں بھی نمایاں کمی ہوجاتی ہے، انسانی جسم کے بخارات نکلنے سے مریض نڈھال ہوجاتا ہے۔

ڈینگی

Image Source: Unsplash

ڈینگی بخار وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے اور اس وائرس کو پھیلانے میں مچھر اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ڈینگی بخار کو “ریڑھ کی ہڈی کا بخار”بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی نشانیوں میں جوڑوں اور پٹھوں میں شدید درد، آنکھوں کے پیچھے درد، سر درد، بخار اور جسم پر سرخ نشانات بننا شامل ہیں۔ ڈینگی بخار سے بچاؤ کی کوئی دوا ہے نہ ہی کوئی ٹیکہ ، اسے صرف حفاظتی تدابیر سے روکاجاسکتا ہے کیونکہ یہ ایسا بخار ہے جس میں تیزی سے پلیٹلیٹس گرنا شروع ہوجاتے ہیں اور اس کی شدت اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ بروقت تشخیص نہ ہونے پر ایک فیصد افراد کی موت بھی واقع ہوجاتی ہے۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *