بریسٹ کینسر کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ، وجوہات کیا ہیں؟


0
1 share

عالمی ادارہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کی طرف سے ہر سال “اکتوبر “کے مہینے کو بریسٹ کینسر کے حوالے سے آگاہی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اکتوبر کے مہینے کو بریسٹ کینسر سے مختص کرنے کا مقصد دراصل خواتین میں اس بیماری کے متعلق شعور و آگاہی پیدا کرنا ہیں اس سلسلے میں دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی خواتین کو اس کینسر سے بچاؤ اور تشخیص کے حوالے سے سیمینار اور آگاہی پروگرام ترتیب دئیے جاتے ہیں تاکہ پڑھے لکھے طبقے کے ساتھ ساتھ نچلے طبقے تک بھی اس کینسر کی مکمل اور درست معلومات پہنچ سکیں کیونکہ پوری دنیا میں خواتین اس وقت سب سے زیادہ بریسٹ کینسر کا شکار ہو رہی ہیں۔

موجودہ دور میں چھاتی کا سرطان ایک عام بیماری بنتی جا رہی ہے یہ بیماری نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں کو بھی لاحق ہو رہی ہے لیکن مردوں میں اسکی شرح بہت کم ہے ۔

ایک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال نوے ہزار خواتین اس بیماری میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ یہ بیماری عموما ً40 سے 60 سال کی عمر کی خواتین میں عام ہے لیکن آج کل نوجوان خواتین میں بھی اس بیماری کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ دیکھا گیا ہے اگر کسی کی دادی نانی یا ماں بہن کو بریسٹ کینسر ہو چکا ہے تو ایسی خواتین میں اس کینسر کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے جبکہ ماحول ، جینیاتی پس منظر ، بچے نہ ہونا یا زائد عمر میں بچے ہونا بھی خواتین میں بریسٹ کینسر کے اسباب بن سکتے ہیں ۔

بریسٹ کینسر کیا ہے؟
بریسٹ کینسر یا چھاتی کا سرطان خواتین میں کینسر کی سب سے عام قسم ہے۔ بریسٹ کینسر جسے چھاتی کا سرطان کہا جاتا ہے غیر معمولی خلیات (cells) کی بہت تیزی سے افزائش کا نام ہے جن پر قابو پانا ممکن نہیں ہوتا۔ خلیات کی یہ ابنارمل افزائش ایک یا دونوں چھاتیوں میں ہوسکتی ہے۔ اگر ابتدائی مراحل میں اس مرض کی تشخیص کر لی جائے تو مریض شفایاب ہوسکتا ہے۔

بریسٹ کینسر کی علامات
شروعات میں اس مرض کی کوئی خاص علامت سامنے نہیں آتی ،گلٹی کی تشخیص بھی اسی وقت ہوتی ہے جب اسکا سائز مٹر کے دانے کے برابر ہو جاتا ہے ۔یہ گلٹی مریض خود شناخت نہیں کر سکتا لیکن اس کی ٹیسٹ یا چھاتی کے ایکسرے خاص طور پر میموگرام سے شناخت ہوتی ہے۔ بریسٹ کینسر میں چھاتی میں گلٹی یا رسولی بن جاتی ہے ،یہ گلٹی یا رسولی سائز میں بڑھ جاتی ہے جسکی وجہ سے چھاتی میں تکلیف ہوتی ہے ۔اس گلٹی یا رسولی کی جڑیں چھاتی میں پھیل بھی سکتی ہیں جس سے چھاتی کی ساخت تبدیل ہو سکتی ہے ۔

اکثر چھاتی کے اندر باہر یا اطراف میں زخم بن جانا بھی خطرناک ہے کیونکہ یہ زخم بڑھ کر کینسر کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ دودھ پلانے والی ماؤں میں دودھ کے علاوہ بریسٹ سے کسی بھی قسم کے دوسرے مادے کا اخراج ہونا بھی ایک ایسی علامت ہے جسے ہر گز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔

تاہم یہ ضروری نہیں ہے جب چھاتی میں کوئی گلٹی بنتی محسوس ہو تو تب ہی ڈاکٹر سے رجوع کریں کیونکہ چھاتی یا بغل میں سوجن بھی اس مرض کی ابتدائی علامات ہو سکتی ہیں اور انہیں طبی جانچ ہڑتال کی فوری ضرورت ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر چھاتی کے سائز، ساخت یا ایک بریسٹ کا دوسرے سے مختلف نظر آنا بھی ایسی علامات ہیں جنہیں بالکل بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ چاہے خاندان میں کسی کو بھی چھاتی کا سرطان لاحق رہا ہو یا نہیں، 45 سال کی عمر کے بعد خواتین کو ڈاکٹر سے وقتاً فوقتاً طبی معائنہ کروانا چاہئیے کیونکہ یہ ان کی صحت کیلئے از حد ضروری ہے۔ نوجوان خواتین کو بھی اپنی روزمرہ زندگی میں ازخود اپنے بریسٹ کا معائنہ کرتے رہنا چاہئے تاکہ وہ اس کینسر سے محفوظ رہ سکیں۔

بریسٹ کینسر کی تشخیص وعلاج

بریسٹ کینسر کی اسٹیجز 0 سے 4 تک کی ہوتی ہیں۔ 0 وہ اسٹیج ہوتی ہے جب کینسر اپنی اصل جگہ تک ہی محدود رہتا ہے جبکہ اسٹیج 4میں بریسٹ سے نکل کر دوسری جگہوں تک پہنچ جاتا ہے۔

سرجری سے پہلےڈاکٹر اس بات کا پتا لگانے کی کوشش کرتے ہیں کے کہیں کینسر پھیل تو نہیں رہا اس کے لئے سب سے پہلے بغلوں میں موجود غدود کا معائنہ کیا جاتا ہے کیونکہ وہاں کینسر کے خلیات سب سے پہلے حملہ آور ہوتے ہیں۔ اسٹیج کا پتا کینسر کے سائز، اس کے دیگرخلیات پر حملہ آور ہونے یا نہ ہونے سے چلتا ہے۔

مریض میں بریسٹ کینسر کی تشخیص کے بعد ڈاکٹر چھاتی میں غیر معمولی انداز میں بڑھنے والے خلیات کوبایوپسی کے ذریعے جانچتے ہیں ۔بعض اوقات غیر معمولی بڑھے ہوئے حصے میں ایک سوئی داخل کرکے خلیات کے کچھ نمونے حاصل کئے جاتے ہیں جسے (نیڈل بایوپسی )کہتے ہیں ،اس کے بعد پیتھالوجسٹ اس نمونے کاجائزہ لیتے ہیں کہ اس میں کینسر کے خلیات موجود تو نہیں۔اس میں کچھ صورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ تمام مشتبہ حصہ چھاتی میں سے ایک چھوٹے شگاف کے ذریعے نکال دیا جاتا ہے

ماہرین کی رائے
ماہرین کہتے ہیں کہ کینسر کا آدھا علاج خوش رہنے میں ہے خوش رہ کر اس کا مقابلہ کریں۔ ہمارے پاس اس کی بہترین مثال اداکارہ نادیہ جمیل ہیں جنہوں نے باہمت انداز سے بریسٹ کینسرکا مقابلہ کیا اور یہ ثابت کردیا کہ علاج کے ساتھ مثبت سوچ اور جینے کی اُمنگ ضرور زندہ رکھنا چاہئیے کیونکہ کینسر میں مبتلا مریض اپنے مثبت طرزعمل اور خوش گمانی سے اس بیماری کو شکست دے سکتے ہیں۔


یاد رکھیں، بریسٹ کینسر مرض ہے کوئی عیب نہیں اردگرد کے لوگوں کوبھی چاہئیے کہ مریض سے محبت کریں ، ان کا حوصلہ بڑھائیں تاکہ وہ پھر سے جی اٹھے۔


Like it? Share with your friends!

0
1 share

What's Your Reaction?

hate hate
0
hate
confused confused
0
confused
fail fail
0
fail
fun fun
0
fun
geeky geeky
0
geeky
love love
1
love
lol lol
1
lol
omg omg
0
omg
win win
2
win

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Choose A Format
Personality quiz
Series of questions that intends to reveal something about the personality
Trivia quiz
Series of questions with right and wrong answers that intends to check knowledge
Poll
Voting to make decisions or determine opinions
Story
Formatted Text with Embeds and Visuals
List
The Classic Internet Listicles
Countdown
The Classic Internet Countdowns
Open List
Submit your own item and vote up for the best submission
Ranked List
Upvote or downvote to decide the best list item
Meme
Upload your own images to make custom memes
Video
Youtube, Vimeo or Vine Embeds
Audio
Soundcloud or Mixcloud Embeds
Image
Photo or GIF
Gif
GIF format