تنشووا آنن ششیر:بنگلادیش کی پہلی خواجہ سرا نیوز اینکر ہونے کا اعزاز


0

بنی نوع انسانوں میں مرد اور عورت کے علاوہ ایک اور صنف موجود ہے جو بظاہر تو انسان ہیں مگر نہ ہی مکمل مرد ہیں اور نہ ہی عورت عام الفاظوں میں انہیں خواجہ سرا کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ حالیہ مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے درد و تکلیف کی اس زندگی کو “تنشووا آنن ششیر” نامی ٹرانسجینڈر نے خیرباد کہہ دیا ہے ۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق بنگلہ دیش کے نجی ٹی وی چینل “بوشاکھی” نے 29 سالہ خواجہ سرا تشنوا عنان شیشیر کو بطور نیوز اینکر بھرتی کیا ہے، جس کے بعد سوشل میڈیا پر ٹی وی چینل کے اس اقدام کو سراہا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز خواتین کے عالمی دن کے موقع پر تشنوا عنان شیشیر نے نجی ٹی وی چینل پرتین منٹ کا نیوز بلیٹن پیش کیا۔

Image Source: Reuters

“تنشووا آنن ششیر” نامی ٹرانسجینڈر نے خواتین کے عالمی دن اور بنگلہ دیش کی آزادی کے پچاس سال پورے ہونے کے موقع پر نجی ٹی وی چینل ” بوشاکھی ٹی وی” پر بنگلہ دیش میں پہلی بار ٹرانسجینڈر نیوز اینکر مقرر کیا گیا ہے ۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے خواجہ سرا تشنوا عنان شیشیر نے کہا کہ انہوں نے اپنی زندگی مطالعہ کرنے اور اپنے کیریئر کو آگے بڑھانے کے عزم کے ساتھ گزاری ہے تاکہ وہ اپنا نقطہ نظر پیش کرسکے۔ آج مجھے وہ پلیٹ فارم مل گیا ہے۔

شیشیر کا کہنا ہے کہ نوعمری میں ہی انہیں خواجہ سرا ہونے کا احساس ہوا تھا۔ اس عرصے میں انہیں جنسی ہراسانی کے ساتھ ساتھ ذہنی اذیت بھی برداشت کرنا پڑی۔

بنگلہ دیش کی پہلی خواجہ سرا نیوز کاسٹر کا مزید کہنا ہے کہ ان کی جنس کی وجہ سے ان کے اہلخانہ کو بھی ہراساں کیا گیا جس کے بعد ان کے والد نے بات کرنا چھوڑ دی تھی۔

اپنے آبائی شہر سے فرار ہونے کے بعد انہوں نے دارالحکومت ڈھاکہ اور نارائن گنج میں تنہا رہائش اختیار کی۔ اس دوران تعلیم حاصل کرنے کا عزم لیے انہوں نے ڈھاکہ کی ایک یونیورسٹی سے پبلک ہیلتھ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرلی۔

شیشیر کا کہنا ہے کہ “نامساعد حالات کے باوجود میں نے کبھی اسکول نہیں چھوڑا اور میری چھٹی حس نے ہمیشہ مجھے کہا کہ پڑھتے رہیں۔ اگر میں پڑھائی جاری رکھتی ہوں تو مجھے منزل مل ہی جائے گی”

Image Source: Reuters

انہوں نے کہا کہ میں نے روزانہ سینکڑوں توہین آمیز جملے سنے لیکن اپنی تعلیم جاری رکھی۔ میرے ذہین میں بس یہی تھا کہ مجھے اپنی تعلیم جاری رکھنی چاہیے۔

شیشیر کا کہنا ہے کہ نوکری کی تلاش میں انہوں نے بہت سارے چینلز کا چکر لگایا لیکن کوئی بھی انہیں رکھنے کے لیے تیار نہ تھا۔ بلا آخر نجی ٹی وی چینل بوشاکھی نے انہیں نوکری کی پیشکش کردی جس پر وہ بے حد خوش ہیں۔

بوشاکھی ٹی وی کے ترجمان جولفیکر علی مانک نے کہا کہ چینل ششیر کو چمکنے کا موقع دینا چاہتا ہے۔ قدامت پسند ملک میں کچھ ناظرین کی طرف سے رد عمل کا خطرہ ہونے کے باوجود۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کی پہلی پوزیشن ایک “تاریخی قدم” کی حیثیت سے ہے۔

وہ کمال حسین شکیر کی حیثیت سے پیدا ہوئی تھیں۔ لیکن اس کا جسم مرد کے جسم میں پھنس گیا تھا۔ لوگوں نے کئی سالوں تک شیشیر کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا ۔

انہوں نے بتایا کہ یہ دھونس اس قدر ناقابل برداشت تھی کہ میں نے چار بار خودکشی کی کوشش کی۔ میرے والد نے مجھ سے برسوں سے بات کرنا بند کردی۔
لوگوں کے رویے سے تنگ آ کر وہ دارالحکومت ڈھاکہ میں تنہا رہنے کے لئے جنوبی ساحلی ضلع میں اپنے گھر سے بھاگ گئیں۔

وہاں اس نے ہارمون تھراپی کروائی ، چیریٹی کے لئے کام کرتے ہوئے نوکری لی ، اور تھیٹر میں کام کیا۔ اس کی تعلیم جاری رکھتے ہوئے۔ جنوری میں ، وہ ڈھاکہ کے جیمز پی گرانٹ اسکول آف پبلک ہیلتھ میں ماسٹر کرنے والی پہلی ٹرانسجینڈر بن گئیں۔

ایل جی بی ٹی برادری کو بنگلہ دیش میں بڑے پیمانے پر امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ ہم جنس پرستوں کو جیل کے ساتھ سزا دینے کی نوآبادیاتی دور کا قانون ابھی بھی موجود ہے ، اگرچہ اس کا نفاذ بہت ہی کم ہوتا ہے۔ 2013 میں ، بنگلہ دیش نے ٹرانس لوگوں کو ایک علیحدہ صنف کے طور پر شناخت کیا۔ 2018 میں ، انہیں تیسری صنف کی حیثیت سے ووٹ ڈالنے کے لئے اندراج کرنے کی اجازت تھی۔

پیر کو شیشیر کی نشریات خواتین کے عالمی دن کے ساتھ موافق تھیں۔ یہ سرکاری اور نجی کمپنیوں کے ذریعہ برادری کے خلاف گہرے بیٹھے ہوئے تعصبات کو دور کرنے کے لئے اقدامات کے سلسلے کی پیروی کرتا ہے۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *