
آج کے ترقی یافتہ دور میں خواتین ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں ۔وہ شعبے جن کا انتخاب پہلے صرف مردوں تک محدود تھا اور خواتین کو ان سے دور رکھا جاتا تھا، آج ان شعبوں میں بھی خواتین بھرپور انداز میں اپنے مہارت کے جوہر دکھا رہی ہیں ۔سیاست کے میدان میں قائدانہ صلاحیتوں کو منوانا ہو، یا پھر کرکٹ کے میدان میں حریف کو شکست دینا ہو یا بزنس کے داؤپیش سیکھنا ہوں آج کی تعلیم یافتہ خواتین نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنی صلاحیت اور ذہانت کے بل بوتے پر ہر پیشے میں اپنا نام بناسکتی ہیں۔
حالیہ دنوں میں بلوچستان پولیس کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ایک خاتون ایس ایچ او تعینات ہوئی ہیں۔ ایس ایچ او ثوبیہ خانم نے اپنے عہدے کا چارج سنبھال کر اپنے کام کا آغاز کردیا ہے۔ ڈی آئی جی کوئٹہ فدا حسین کے مطابق ثوبیہ خانم کی تعنیاتی میرٹ اور ان کی قابلیت کو مدنظر رکھ کر کی گئی ہے۔

تعینات کیے جانے پر ثوبیہ خانم نے آئی جی بلوچستان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کے لیے بلوچستان پولیس کا ماحول بہت اچھا ہے اور ہم قوم کی بیٹاں، بہنیں اور مائیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان پولیس میں اپنے فرائض کی ادائیگی میں جان بھی دینا پڑی تو پیچھے نہیں ہٹوں گی اور ہر مشکل گھڑی کا ڈٹ کر مقابلہ کروں گی۔

ثوبیہ خانم نے اس مقام تک پہنچنے کے لئے سخت جدوجہد کی ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ پولیس میں شمولیت سے پہلے اور شادی کے بعد انہیں اپنی زندگی میں بہت محنت کرنا پڑی تھی۔ان کے شوہر نے خاموشی سے دوسری شادی کی اور ان سے رابطہ اور ناطہ توڑ دیا جس پر انہوں نے اپنی اور بیٹی کی ذمہ داری خود سنبھال لی۔ان کی غیرت نے یہ گوارا نہیں کیا کہ کوئی ان کا اور ان کی بیٹی کا بوجھ اٹھائے۔

اس سلسلے میں ثوبیہ خانم نے پہلے ایک اسکول میں معاون استاد کے طور پر ملازمت اختیار کی اور اسی دوران وہ ایف اے کرکے فل ٹائم استاد بن گئیں لیکن گزارہ نہیں ہوتا تھا، لہٰذا انہوں نے شام میں ایک ریڈیو اسٹیشن میں کام تلاش کرلیا، جہاں پر انہیں ایک گھنٹے کے سو روپے دئیے جاتے اور وہ رات تک وہاں پر کام کرتی تھی، وہ زیادہ کام کرنے کی کوشش کرتیں تاکہ زیادہ پیسے مل سکیں۔
اس دوران ان کی بیٹی ہر وقت ان کے پاس ہوتی تھی کیونکہ ان کے علاوہ اس کی کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہیں تھا۔ان تمام مشکل حالات کے باوجود انہوں نے نہ صرف تعلیم مکمل کی بلکہ بلوچستان پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے پولیس میں بحیثیت اسسٹنٹ سب انسپکٹر شمولیت اختیار کی اور اپنی قابلیت کی بنیاد پر ایس ایچ او تعینات ہوگئیں۔
مزید پڑھیں: پولیس افیسر سائمہ شریف اقوامِ متحدہ مشن برائے امن کیلئے منتخب
پاکستان میں محکمہ پولیس میں خواتین کی نمائندگی بڑھتی جارہی ہے جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔ گزشتہ دنوں پشاور پولیس میں بھی خواتین اہلکاروں کی تعداد میں اضافے دیکھا گیا جس کے بعد خواتین پولیس اہلکار ٹریفک کا نظام سنبھالنے اور ٹریفک قوانین سے متعلق آگاہی اور لائسنس دینے جیسے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔
ڈی ایس پی انیلہ ناز کا شمار بھی ان خواتین میں ہوتا ہے۔وہ پشاور پولیس کی پہلی خاتون ٹریفک پولیس افسر ہیں جنہیں یہ عہدہ سونپا گیا ہے ورنہ عموماً ٹریفک کے انتظامات سنبھالنے اور لائسنس چیک کرنے کی ذمہ داریاں مرد اہلکار ہی کرتے ہیں۔
0 Comments