
صوبہ خیبر پختونخواہ کے شمال مغرب میں وزیرستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں جہاں نا تو بنیادی سہولیات ہیں اور نا ہی بچوں کی تعلیم کیلئے کوئی مناسب بندوبست ، ایسے حالات میں اس گاؤں کے ایک باہمت نوجوان حاجی محمد علی نے بچوں کو تعلیم دینے کا بیڑا اٹھایا اور علاقے کی چھوٹی سی مسجد کو ہی درسگاہ بنالیا۔
محمد علی ، جو خود کوئی اعلیٰ ڈگری یافتہ نہیں لیکن اپنی تعلیم اور لگن سے گاؤں کے بچوں کو علم کی دولت سے روشناس کروا رہے ہیں۔ عرب نیوز سے گفتگو میں حاجی محمد علی نے بتایا کہ مسجد میں کھولے گئے اس اسکول میں فی الحال 120 بچوں ہیں، جن میں 40 لڑکیاں ہیں ، وہ اس اسکول کے واحد استاد ہیں اور تین گھنٹے کی دو شفٹوں میں پڑھتے ہیں۔

محمد علی نے عرب نیوز کو مسجد میں اسکول کے آغاز سے پہلے کی صورتحال کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ میرے لیے یہ بہت پریشان کن تھا کہ بچوں کو صرف اِدھر اُدھر گھومتے پھرتے، درختوں پر چڑھتے یا مویشیوں کو چراتے دیکھوں۔ محمد علی کا کہنا تھا کہ اسکول کی تعمیر کے لئے اس نے گاؤں کا ہر دروازہ کھٹکھٹایا اور لوگوں سے درخواست کی کہ وہ اسکول بنانے میں ان کی مدد کریں لیکن کسی نے اس کی کوئی مدد نہیں کی۔
تاہم ، 2008 میں محمد اپنے خاندان کے ساتھ کراچی منتقل ہوگئے۔ کراچی میں قیام کے دوران محمد علی نے پرائیویٹ طور پر تعلیم حاصل کی اور 2014 میں میٹرک کیا، پھر اس نے پرائمری اسکول کے بچوں کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ ہوم ٹیوشن دینا شروع کی۔ 2016 میں، وہ واپس اپنے آبائی شہر گئے اور وہاں دو طالب علموں سے پڑھانے کا آغاز کیا مگر جب آہستہ آہستہ طلباء کی تعداد بڑھنے لگی تو محمد علی نے اپنی کلاسیں گاؤں کی مسجد میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا اس طرح یہ مسجد درسگاہ بن گئی۔

محمد علی کے مطابق 2017 سے وہ اس اسکول میں کلاس 1 سے 4 تک اردو، انگریزی اور ریاضی پڑھا رہے ہیں۔ انہوں نے اب تک جن طلباء کو پڑھایا ہے، ان میں سے کچھ اپنی تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے ملک کے دوسرے شہروں میں چلے گئے ہیں۔ وہ امید کرتے ہیں کہ ضلعی انتظامیہ اور ضلع کے امیر اس درسگاہ کو اپ گریڈ کرنے میں ان کی مدد کریں گے۔ انہوں نے حکومت اور صاحب حیثیت لوگوں سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ اس کار خیر میں مالی امداد کے لئے آگے آئیں اور ان کے لئے کچھ ماہانہ وظیفہ مقرر کریں تاکہ وہ اپنے والدین اور بچوں کی کفالت بھی کرسکیں۔

اس حوالے سے ضلعی انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار اعجاز اختر کا کہنا ہے کہ مقامی حکومت محکمہ تعلیم کے ساتھ مل کر محمد علی سے رابطہ کرے گی اور ان کے مشن میں ان کی ہر ممکن مدد کرے گی۔ محمد علی نے عرب نیوز کو یہ بھی بتایا کہ ایک مقامی تنظیم نے اسکول کو اسٹیشنری عطیہ کی ہے تاہم ضلعی انتظامیہ نے کاغذی کارروائی مکمل کرنے کے بعد اسکول کے لئے فرنیچر دینے کا وعدہ کیا ہے۔
مزید پڑھیں: لمز کے طلباء کی عظیم کاوش، آج ایک ویٹر یونیورسٹی گریجویٹ ہوگیا
بلاشبہ آئین پاکستان کے تحت ملک میں ہر بچے کو بنیادی تعلیم اور یکساں مواقع فراہم کرنے حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن ہماری حکومتیں اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں جس کا نتیجہ آج یہ ہے کہ پاکستان میں تقریباً پچیس ملین (یعنی ڈھائی کروڑ) بچے اسکول نہیں جاتے۔ اگر ہم فروغ تعلیم کے لیے انفرادی کوششوں کی بات کریں تو بطور معاشرہ یہ ہمارا امتحان کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو کس حد تک سمجھتے اور پورا کرتے ہیں۔
گزشتہ دنوں سندھ یونیورسٹی کی طالبہ ماہ نور شیخ نے اپنی اس انفرادی ذمہ داری کوسمجھتے ہوئے اپنے گاؤں کے غریب بچوں کی تعلیم وتربیت کے لئے ایک مثالی قدم اٹھایا اور اپنے گھر کو اسکول میں تبدیل کرکے غریب بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا۔ یاد رہے کہ حکومت سندھ نے ان کے اس اقدام کو سراہتے ہوئی تعریفی اسناد سے بھی نوازا۔
Story Courtesy: Arab News
0 Comments