لمز کے طلباء کی عظیم کاوش، آج ایک ویٹر یونیورسٹی گریجویٹ ہوگیا


0

غربت ایک عالمی مسئلہ ہے، جو معاشرے میں دن بدن دیگر مسائل کو جنم دے رہا ہے ،کہیں بچوں کو تعلیم چھوڑنے پر مجبور کر رہا ہے، تو کہیں محنت مزدوری کرنے والوں کو کم اجرت کے باعث زیادہ وقت کام کرنے پر مجبور کررہا، تو کہیں معاشرے میں جرائم کی شرح میں اضافے کا باعث بن رہا ہے، لیکن آج ہم تذکرہ کررہے ہیں، ایک ایسے نوجوان کا جو مشکل حالات کے باعث پڑھائی چھوڑ کر ویٹر بن گیا تھا، لیکن چند نوجوانوں کی کاوش نے اسے ایک اعلی یونیورسٹی کا گریجویٹ بنا دیا۔

تفصیلات کے مطابق سالار خان جوکہ پیشہ کے اعتبار سے صحافی ہیں اور انگریزی اخبار دی نیوز سے وابستہ ہیں، ان کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر سے ایک تفصیلی پوسٹ شئیر کی گئی، جس میں انہوں اپنے یونیورسٹی دور کے ایک واقعے کی مکمل معلومات سے آگاہ کیا۔

Image Source: Twitter

سالار خان لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ (لمز) سے فارغ التحصیل طالب علم ہیں، جہاں انہوں نے سال 2014 سے 2015 تک اسٹوڈنٹ کونسل کے صدر حیثیت سے فرائض سرانجام دیئے ہیں، انہوں نے اپنی جاری کردہ پوسٹ میں بتایا کہ یہ آٹھ سال پہلے کی انصار علی کی تصویر ہے۔ اس وقت وہ لاہور میں ذاکر تِکا کی لمز برانچ میں ویٹر تھا، جسے نویں جماعت کے بعد اسکول چھوڑنا پڑا تھا۔ لیکن اب 2 مہینوں میں وہ اکاؤنٹنگ اینڈ فننانس میں بی ایس کے ساتھ زیبسٹ سے فارغ التحصیل ہوگا۔

یہ 2013 کی بات ہے کہ جب وہ بھی لمز میں طالب علم تھے اور کیمپس میں کام کرنے والے مختلف افراد پر ہیومنز آف کمز کے عنوان سے لمز فوٹوگرافک سوسائٹی کے لیے ایک سیریز کر رہے تھے۔

سالار خان کے مطابق انصر ہمیشہ مسکراتا رہتا تھا جب وہ ایک آڈر لے کر دوسرے آّڈر کی جانب بڑھتا تھا۔ وہ سب کا پسندیدہ تھا۔ اس مسکراہٹ کے پیچھے چھپے درد کا کسی شبہ بھی نہیں تھا۔ انصار کو اسکول پسند تھا لیکن حالات سے مجبور ہوکر اس نے اسکول سے منہ موڑ لیا تھا۔ لیکن ان تمام طلباء کے درمیان کسی یونیورسٹی میں کام کرنے کے لئے اسکول کو ترک کرنا ایک ظلم لگتا تھا۔

سالار خان کا کہنا تھا کہ ہم صرف چند بچے تھے جن میں سے زیادہ تر مراعات یافتہ طبقے سے تھے لیکن چند طالب علم اسٹوڈنٹ بجٹ پر بھی پڑھ رہے تھے۔ تو ہم انصار کو کھلے دل سے ٹپ دے کر اپنے افسوس کا ازالہ کرتے تھے۔

تاہم اس دوران دو سال تیزی سے گزر جاتے ہیں اور وہ اسٹوڈنٹ باڈی کے صدر بن چکے تھے۔ ابھی ان کے دور کا اختتام ہی ہورہا تھا اور وہ پارٹنگ گفٹ جیسی روایت پر کام کررہے تھے تو چنانچہ اُنہوں نے سوچا کہ وہ انصار کو دوبارہ اسکول میں داخل کرائیں۔

لہذا پھر ایک روس رات میں ذاکر تکا میں ہی انصار کے ساتھ بات کی اور اسے بتایا کہ وہ انصار کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ انصار یہ سب سن کر بہت پرجوش اور خوش ہوگیا تھا۔البتہ ابتدائی جوش و خروش کے فورا بعد ہی یہ واضح ہوگیا تھا کہ یہ معاملہ ہمارے خیال سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہوگا۔ یہاں انصار کی محض فیسوں کا احاطہ کرنا کافی نہیں تھا۔ ہمیں اس کام کو کرنے کے لئے، انصار کے اہلخانہ کی مدد کرنی ہوگی کیونکہ انصار نے اپنی پڑھائی محض اس ہی کے لئے چھوڑی تھی۔

سالار خان نے بتایا کہ اس کام کے لئے پھر اسے انصار کے گھر ننکانہ صاحب جانا پڑا، جہاں اس کی والدہ ناصرف واقف تھیں بلکہ بافخر تھیں کہ ان کا بیٹا کتنا قابل تھا، گھر کی ایک دیوار پر ایک میڈل پھر لٹکا ہوا تھا جو انصار کو پانچویں کلاس میں پہلی پوزیشن کرنے پر ملا تھا۔ چنانچہ پھر ہم انصار کی والدہ کو یقین دہانی کرائی کہ ان کے گھر اتنی رقم پہنچتی رہے گی، جو ابھی انصار انہیں بھیجتا ہے۔ جس پر پھر انصار کی کی والدہ نے رضامندی ظاہر کردی۔

سالار خان کی ٹوئیٹر پوسٹ کے مطابق اب انصار کو مہانہ 30 ہزار روپے کی ضرورت تھی کیونکہ اسے ایف اے / ایف ایس سی اور اس کے بعد یونیورسٹی جانا تھا۔ اگر اس رقم میں کوئی اضافہ نہیں کیا جائے تو یہ کل ملا کر 20 لاکھ روپے بنتی تھی۔ جوکہ بظاہر ناممکن نظر آتا تھا، لیکن ہم نے اس کام کو جاری رکھنے کا ارادہ کیا۔

اس سلسلے میں لمز کے کیمپس میں گو فنڈ می کے نام سے چندے کے باکس رکھ دیئے گئے اور اس کے ایک ہفتے کے بعد انصار نے ذاکر تکہ سے کام کرنا چھوڑ دیا اور ایک بار پھر سے اسکول جانا شروع کر دیا۔ لیکن اس عرصے میں انصار علی کو ہر قدم پر نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ 4 سال اسکول سے باہر رہنے کے بعد انصار 22 برس کی عمر میں صرف اپنے انٹر کے امتحانات پرائیویٹ دے سکتا تھا یعنی وہ والے مضامین نہیں لے سکتا تھا، جس میں پریکٹیکل ہوتے ہیں، چنانچہ اس کے ایف اے کے علاوہ کوئی آپش نہیں تھا، ساتھ ہی ساتھ گھر کا۔کرایا بچانے کے لئے وہ ان کے گھر پر ہی منتقل ہوگیا، جہاں وہ پڑھائی کیا کرتا اور پھر انصار نے اپنی انتھک محنت اور جدوجہد سے 800 نمبرز لے کر اے گریڈ سے ایف اے کیا۔

واضح رہے لمز کے طلباء کی جانب سے جو رقم جمع کی تھی وہ ایک سال ایف اے اور یونیورسٹی کے پانچ سالوں میں سے صرف ڈھائی سال کا خرچہ تھی۔ یہ کام ان طلبا نے کیا جو یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو چکے تھے اور جابز کر رہے تھے۔ لیکن اس دوران ساتھ ساتھ تنقید بھی ہو رہی تھی کہ ایک انسان پر اتنا کیوں خرچ کریں؟ وہ کاہل ہو جائے گا وغیرہ وغیرہ، تاہم تنقید برداشت کی اور انصار کے لئے پیسے اکٹھے کرتے گئے اور وہ پڑھتا چلا گیا۔

اور اب انصار نے یونیورسٹی جانا تھا اور انصار حساب کتاب اور نمبرز میں اچھا تھا، لہذا اس نے اکاؤنٹنگ پڑھنے کا فیصلہ کیا۔ اس کا داخلہ زیبسٹ میں جزوی اسکالر شپ پر ہوگیا۔ لیکن وہاں اسے زبان کا مسئلہ درپیش ہوا جس کے لیے اسے ایک انگلش لینگویج کورس بھی کروایا گیا اور پھر اس نے انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ یونیورسٹی کا سفر مکمل کیا۔

سالار خان کا کہنا ہے کہ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے، بلاشبہ انصار نے ایک طویل سفر طے کیا ہے، اور یہ سب کو کبھی بھی ممکن نہیں ہوسکتا تھا، یہ کار خیر میں ان گنت لوگوں نے مدد اور سپورٹ کیا ہے، لہذا اب یہاں ایک اور قدم بھی ہے، جہاں آپ بھی اس سفر کا حصہ بن سکتے ہیں، سالار نے انصار علی کی سی وی شئیر کرتے ہوئے، عوام سے درخواست کی کہ انصار کو ایک اچھی نوکری تلاش کرنے میں، اس کی مدد کریں۔

اس سلسلے میں سالار نے انصار کے ٹوئیٹر اکاونٹ کو بھی شئیر کیا ہے۔ جہاں انصار اس کی حوصلہ افزائی کرنے والوں شکریہ ادا کررہا ہے۔

یاد رہے دنیا میں کوئی کام مشکل یا ناممکن نہیں، انسان کے اندر کوئی کام کرنے کا عظم و حوصلہ ہونا چاہئے، وہ انسان سے مشکل سے مشکل ترین کام کرنے کی ہمت دے دیتی ہے۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *