ملزم ظاہر جعفر کو نازیبا جملوں کے استعمال پر کمرہ عدالت سے نکال دیا گیا


-1

پولیس نے بدھ کے روز نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ سے کارروائی میں خلل ڈالنے اور مستقل طور پر نازیبا الفاظ استعمال کرنے پر اسے کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کی سربراہی میں سماعت کے دوران کیس کے تمام ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا۔

Image Source: File

جوں ہی کمرہ عدالت میں کاروائی شروع ہوئی، مرکزی ملزم ’حمزہ‘ کا نام لیکر چیختا رہا، اور ادھر اُدھر اشارہ کرتا رہا، جہاں کوئی موجود نہ تھا۔ ملزم کے بار بار بولنے اور خراب روئے کے باعث عدالت نے پولیس کو ملزم کو لے جانے کی ہدایت دی تو ملزم نے کہا کہ وہ اب نہیں بولے گا اور دروازے کے پیچھے کھڑا ہوگیا۔

اس دوران مرکزی ملزم کی جانب کچھ دیر بعد پھر عدالتی کارروائی کو متاثر کرنے کی کوشش کی اور کہتا رہا کہ اسے کچھ کہنا ہے۔ بعدازاں ملزم عدالت میں سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ میرا کورٹ ہے، میں نے ایک چیز کہنی ہے‘۔ اس کا سب کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ ایسا روئیہ ناکام ریاست کی علامت ہوگی۔

یہی نہیں ملزم ظاہر جعفر نے ناصرف عدالت کے خلاف بلکہ عدالت میں موجود جج کے خلاف سخت اور نازیبا جملوں کا استعمال کیا۔ ملزم کا کہنا تھا کہ یہ عدالت گندگی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ “یہ عدالت اس کیس کو محض کھینچ رہی ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔ اس نے اس سے زیادہ جعلی چیز کبھی نہیں دیکھی۔

Image Source: File

مرکزی ملزم ظاہر جعفر کا مزید کہنا تھا کہ “وہ تم لوگوں کو موقع دے رہا ہے کہ اسے پھانسی دے دیں لیکن پھر بھی تم لوگ اسے گھسیٹ رہے ہو،” “یہ سب محض ایک کٹھ پتلی شو ہے۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں اس سے زیادہ نااہل لوگوں کو ایک کمرے میں نہیں دیکھا ہے”۔

ملزم ظاہر جعفر پر بدتمیزی پر کمرہ عدالت میں موجود جج عطا ربانی نے فوری طور پر پولیس حکام کو ہدایت کی کہ وہ اسے عدالت سے لے جائیں۔ “یہ ان کا ایک اور ڈرامہ ہے۔ جس پر پولیس نے اسے پکڑ کر باہر لے جانے کی کوشش کی، تو ظاہر جعفر نے ایک پولیس افسر کو گریبان سے پکڑلیا۔

واقعے کی ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پولیس اہلکار ملزم ظاہر جعفر کو کمرہ عدالت سے باہر گھسیٹتے ہوئے لے جارہے ہیں۔ اگرچے ملزم مزاحمت کرتا ہے، جس پر چار پولیس اہلکار کو زبردستی پکڑ کر دوبارہ لاک اپ میں لے جاتے ہیں۔

Image Source: File

جس پر جج عطا ربانی نے کہا کہ وہ ملزم کو توہین عدالت کا نوٹس جاری نہیں کریں گے البتہ مقدمے کی سماعت جیل سے ہی شروع کی جائے گی۔

واضح رہے بدھ (آج) کو ہونے والی سماعت میں، وکیل اکرم قریشی نے تھیراپی ورکس ملازمین کی نمائندگی کی۔ اسد جمال نے عصمت آدم جی کی نمائندگی کی۔ جبکہ سجاد احمد بھٹی جعفر کے گھر کے گھریلو عملے کے قانونی مشیر کے طور پر پیش ہوئے تھے۔

دوسری جانب ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر کے وکیل ایڈووکیٹ بشارت عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ دریں اثنا، آج کی سماعت میں ملزمان کے وکلا کی جانب سے استغاثہ کے تین گواہوں پر جرح کی گئی۔

مزید برآں، عدالت نے میڈیکل لیگل آفیسر ڈاکٹر جہانزیب، جنہوں نے مقتولہ نور مقدم کی لاش کا پوسٹ مارٹم کیا، کرائم سین کے انچارج عمران اور کیس کے دفاع کے دو گواہوں کو 10 نومبر کو اگلی سماعت میں طلب کیا ہے۔


خیال رہے مقامی عدالت نے گزشتہ ہفتے جمعرات کے روز مرکزی ملزم ظاہر جعفر، اس کے والدین اور دیگر ملزمان پر فرد جرم عائد کر دی تھی۔ البتہ تمام ملزمان نے عدالت میں صحت جرم سے انکار کر دیا تھا۔ جس پر عدالت نے مقدمے کی سماعت شروع کرنے کے لئے استغاثہ کے گواہوں کو 20 اکتوبر تک طلب کرلیا ہے۔

ساتھ ہی مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے دوران سماعت اعتراف کیا کہ اس نے یہ قتل کیا ہے، بار بار عدالت میں جملے کو ادا کیا کہ اس نے یہ جرم کیا ہے، جبکہ قتل میں استعمال ہونے والا اسلحہ اس کے والد کا تھا۔

مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے عدالت میں مقتولہ کے والد شوکت مقدم سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ میری جان کو خطرہ ہے، مجھ پر رحم کریں۔ ساتھ ہی ملزم نے جج سے التجا کی کہ وہ اس کی سزا کو گھر میں نظر بندی میں تبدیل کردیں، کیونکہ وہ جیل واپس نہیں جانا چاہتا ہے، اسے جیل میں مارا پیٹا جاتا ہے۔ وہ سلاخوں کے پیچھے نہیں مرنا چاہتا ہے، اس کی شادی ہونی چاہئے، بچے ہونے چاہیئے۔ اس نے عدالت سے معافی کی بھی استدعا کی۔

یاد رہے وزیراعظم پاکستان عمران خان چند روز قبل براہ راست ٹی وی نشریات، “آُپکا وزیراعظم آپ کے ساتھ” میں نور مقدم قتل کیس پر بات کرتے ہوئے قوم کو یقین دلایا تھا کہ وہ اپنی پوری توجہ اس کیس پر مرکوز کئے ہوئے ہیں، قاتل صرف اس وجہ سے انصاف کے عمل سے بچ نہیں سکے گا کہ وہ کسی بااثر خاندان سے ہے اور دوہری شہریت رکھتا ہے


Like it? Share with your friends!

-1

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *