ہندوستانی مسلم خواتین کی تصاویر و ذاتی معلومات “نیلامی” کیلئے پیش


1

فرض کریں کہ آپ صبح اٹھیں اور دیکھیں کہ انٹرنیٹ پر آپ کی تصاویر اور ذاتی معلومات “نیلام” ہو رہی ہیں اور کچھ لوگ آپ پر فحش تبصرے کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کی بولی بھی لگا رہے ہیں تو آپ پر کیا بیتے گی؟

ایسا واقعی ہوا ہے،مسلم خواتین کو ہراساں کرنے کے لئے “ ُسلی ڈیلز” کے نام سے ایک ویب سائٹ نے 90 ہندوستانی مسلمان خواتین کی فروخت کے لئے اشتہار دے دیا۔

واضح رہے کہ “سُلی “ایک توہین آمیز اصطلاح ہے، جو مسلمان خواتین کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ سُلی ڈیلز کے نام سے اس اوپن سورس ایپ پر مسلم خواتین صحافیوں ، کارکنوں ، تجزیہ نگاروں، فنکاروں اور محققین کو شامل کر کے انہیں نیلامی کے لئے پیش کیا گیا۔ ہندوستانی خواتین کی اکثریت کے ساتھ یہاں پاکستان سمیت دیگر ممالک کی خواتین بھی تھیں جن کی تصاویر کے ساتھ ٹویٹر ہینڈلز بھی دئیے گئے تھے۔ اس ایپ پر”فائنڈ یور ُسلی ڈیل” پر کلک کرنے پر ایک مسلمان خاتون کی تصویر، نام اور ٹوئٹر ہینڈل کی تفصیلات صارفین سے شیئر کی جارہی تھیں۔

کمرشل پائلٹ ہانا خان ان مسلم خواتین میں سے ایک ہیں جن کی تصاویر اور ذاتی تفصیلات اس ایپ پر نیلامی کے لیے رکھی گئی۔ اس بارے میں انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کا نام بھی اس فہرست میں تھا، انہیں اس ایپ کے بارے میں اس وقت پتہ چلا جب ایک دوست نے انہیں ٹویٹ کیا۔ جب وہ اس ایپ پر گئی تو اس پر لکھا گیا تھا “فائنڈ اے ُسلی” جب انہوں نے اس پر کلک کیا تو “یور ڈیل فار ٹوڈے” کے ساتھ ان کی اپنی تصویر اور ٹوئٹر اکاؤنٹ کی تفصیلات سامنے آ گئیں۔

اس ایپ کو مزید چیک کرنے پر ہانا خان کو اپنے علاوہ اپنی دوستوں کی تصاویر بھی دیکھیں۔ انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس ایپ میں استعمال ہونے والی مسلمان خواتین کی معلومات ٹوئٹر سے لی گئی اس پر 83 سے زائد خواتین کی تصاویر، ان کے نام اور ٹوئٹر ہینڈلز موجود تھے۔

دراصل اس اوپن سورس ایپ کو گٹ ہب پر تیار کیا گیا جو انٹرنیٹ ہوسٹنگ کمپنی ہے۔ تاہم شکایات موصول ہونے پر اسے پیر کو گٹ ہب نے ہٹادیا۔ گٹ ہب کے جاری کردہ بیان کے مطابق اس معاملے میں صارف کے اکاؤنٹ کو معطل کردیا ہے اور اطلاعات کی بنیاد پر تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ گٹ ہب نے واضح کیا کہ ایسا مواد جس میں کسی طرح کی تفریق، تشدد یا زیادتیوں کو بڑھاوا ملے ان کی پالیسیوں کی خلاف ورزی ہے۔

بلاشبہ خواتین چاہے کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہوں، اگر ان کی تصویر اور ذاتی معلومات عام کردی جائیں تو وہ پریشان ہوجاتی ہیں۔ چنانچہ بہت سی خواتین نے تو اس ایپ کی وجہ سے سوشل میڈیا سے اپنے اکاؤنٹ ہی حذف کردئیے۔

دریں اثنا ،متعدد خواتین جن کی ذاتی معلومات اس ایپ پر شیئر کی گئیں انہوں نے اس کے خلاف سوشل میڈیا پر آواز اٹھائی اور واٹس ایپ گروپ بھی تشکیل دیا۔ سوشل میڈیا پر اس ہراسگی کا سامنا کرنے پر ہانا خان سمیت دیگر نے سائبر کرائم کے تحت اس معاملے پر ایف آئی آر بھی درج کروائی۔ تاہم ،اس معاملے پر تحقیقات کا دعویٰ کرنے کے باوجود پولیس نے ایپ بنانے والے کی شناخت بتانے سے انکار کر دیا ہے ۔

قبل ازیں ، رواں سال مئی کے شروع میں عید الفطر کے موقع پر جب پاکستانی اور انڈین مسلم خواتین کی عید پر سیلفیاں اور تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہوئیں تو انڈین مرد میدان میں آئے اور انہوں نے نہ صرف ان تصاویر پر نازیبا تبصرے کیے بلکہ ان تصاویر کو یوٹیوب چینل کے ذریعے شیئر بھی کیا۔ یوٹیوب پر لائیو سٹریم کے ذریعے ان انڈین صارفین کی طرف سے خواتین کے بارے میں نازیبا تبصرے کیے جاتے رہے حتیٰ کہ اس ویڈیو کو دیکھنے والوں کی جانب سے ان کی بولیاں بھی لگائی گئیں جس کے بعد ٹوئٹر پر صارفین کی جانب سے اس ویڈیو کو عمل میں لانے والے افراد کی سخت مذمت کی گئی اور ٹوئٹر انتظامیہ سے اس اقدام میں ملوث صارفین کے خلاف کارروائی کرنے کی اپیل بھی کی گئی۔

حالیہ دنوں میں اتر پردیش کے ضلع متھورا میں ہندو انتہا پسندوں نے ایک مسلمان لڑکے جئے شری رام کے نعرے نہ لگانے پر اسے تشدد کا نشانہ بنایا اور کوڑے مارے تھے۔ نوجوان لڑکے پر اس بہیمانہ تشدد کی خوفناک ویڈیو سوشل میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آئی تھی۔

Story Credit: BBC


Like it? Share with your friends!

1

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *