عثمان بھائی کہا کرتی تھی،لیکن میرا نمبر عثمان نے لیک کرا دیا


1

منگل کے روز سوشل میڈیا پر دل دہلا دینے والی ویڈیو وائرل ہوئی، جس میں ایک مشتبہ شخص کو نوجوان لڑکے اور لڑکی کو ہولناک انداز میں تشدد کا نشانہ بناتے دیکھا گیا۔ مشتبہ شخص دونوں کو کپڑے اُتارنے اور آپس میں سیکس کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ بعدازاں پولیس نے مرکزی ملزم عثمان مرزا اور قریبی ساتھیوں کو گرفتار کرلیا تھا، تاہم اب خبریں زیرگردش ہیں کہ مرکزی ملزم کو اس کیس میں ضمانت مل گئی ہے۔

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کے علاقے ای الیون 2 میں واقع ایک اپارٹمنٹ میں ظلم و بربریت کا ایک ہولناک رونما ہو۔ جس نے سوشل پر کچھ ہی دیر میں طوفان برپا کر دیا، پورے ملک یک زبان تھا کہ ملزمان کے خلاف سخت سخت کاروائی کی جائے، اس سلسلے میں عثمان مرزا کی گرفتاری کا ھیش ٹیگ ٹاپ ٹرینڈ رہا۔

اس انسانیت سوز واقعے کی 6 جولائی کو گولڑا پولیس اسٹیشن کے سب انسپکٹر کی مدعیت میں درج کی گئی، جس کے مطابق یہ واقعہ ای الیون 2 میں واقع ایک اپارٹمنٹ کے فلیٹ میں رونما ہوا، جس پر سوشل میڈیا پر جہاں شدید ردعمل سامنے آیا وہیں ڈی سی اسلام آباد نے بھی واقعہ کا فوری نوٹس لیا۔ بعدازاں مرکزی ملزم عثمان مرزا، عطا الرحمان اور فرحان کو حراست میں لے لیا گیا۔

اس واقعے کے حوالے سے بتایا جا رہا ہے کہ یہ واقعہ ماہ قبل پیش آیا تھا، جہاں عثمان مرزا اور اس کے ساتھی زبردستی ایک فلیٹ کے اندر داخل ہوئے اور فلیٹ میں موجود خاتون کی نازیبا ویڈیو ریکارڈ کی۔ اس دوران وہ مذکورہ جوڑے کو ریکارڈ ویڈیو کے بنیاد پر بلیک میل کرلے پیسوں کا مطالبہ کرتے رہے، جبکہ مذکورہ جوڑے کو تعاون نہ کرنے پر ویڈیو وائرل کرنے کی دھمکیاں بھی دیتے رہے۔

اس حوالے سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر ایک ٹوئٹ سامنے آئی ہے، جس میں مرکزی ملزم عثمان مرزا کی کلاس میٹ نے انکشاف کرتے ہوئے بتایا ہے کہ وہ انہیں عثمان بھائی کہہ کر مخاطب کرتی تھیں، اگرچے وہ اس دوران مکمل عبایا بھی لیا کرتیں تھیں، لیکن انہوں نے میرا اور میری دوستوں کا موبائل نمبر آدھے اسلام آباد میں پھیلا دیا تھا۔ جبکہ وہ محض اس وقت صرف 19 برس کی تھیں۔

واضح رہے اس سے قبل ڈپٹی اسلام آباد کی جانب سے ٹوئیٹر پر پیغام جاری کیا گیا تھا، جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ یہ واقعہ کچھ ماہ پرانا ہے۔ بعدازاں انسانیت سوز واقعے کی وائرل ویڈیو پر شدید عوامی ردعمل دیکھا گیا تھا، عوام کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا ہے، اس طرح کے پیشہ ور ملزمان کو سخت سے سخت سزا دے کر نشان عبرت بنا دیا جائے۔

دوسری جانب پولیس کی جانب سے متاثرہ لڑکے اور لڑکی کا بھی تلاش کرلیا گیا ہے، جس پر پولیس نے ان سے واقعے کے حوالے سے بیان ریکارڈ کرانے کی درخواست کی، لیکن دونوں شہری فلحال بیان ریکارڈ کرانے پر آمادہ نہیں ہیں۔ متاثرہ افراد اس حد تک خوفزدہ ہیں کہ متاثرہ لڑکے نے واقعے پر ناصرف درخواست گزار بننے پر معذرت کی بلکہ کسی قسم بیان ریکارڈ کرانے سے بھی معذرت ہیں، اس کا کہنا ہے کہ ملزم انہیں اور ان کے اہلخانہ کو قتل کردے گا جبکہ لڑکی کا بھی یہی موقف ہے۔

افسوس کے ساتھ یہاں پولیس کی کارکردگی پر ایک واضح سوال اٹھتا ہے کہ پولیس ملزمان کے خلاف کاروائی کرنے کے لئے کیا ٹوئیٹر ٹرینڈ چلنے کا انتظار کررہی تھی، اطلاعات ہے کہ اس ویڈیو کی بنیاد پر ملزم کو پہلے گرفتار کیا گیا تھا، تو یہ کیسے ممکن ہے اتنے بڑے کیس پر ملزم اتنی جلدی بیل پر باہر آگیا۔

مئی کے مہینے کی ملزم کی ایک پرانی ویڈیو سامنے آئی ہے، جس میں اسے فخر ہے کہ وہ گرفتار ہوجائے گا لیکن اسے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ جلد ہی باہر آجائے گا۔ ایک اور ویڈیو میں ، وہ اس بارے میں بات کر رہا ہے کہ ان کے رابطوں سے اسے اور اس کے ساتھیوں کو کتنی آسانی سے ضمانت مل گئی۔

یاد رہے دو روز قبل بھی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی، جس میں ایک راہ چلتی خاتون کو پی ایس او پمپ کا ایک ملازم راہ چلتی خاتون کو سڑک پر جنسی طور پر ہراساں کرتا ہے، جس پر خاتون کو شدید غصہ آتا ہے اور وہ ملزم پکڑنے کی کوشش کرتی لیکن وہ بھاگ جاتا ہے بعدازاں کچھ لوگ اسے پکڑتے ہیں اور خاتون بغیر ڈر وخوف کے چپل سے مذکورہ شخص کی درگت بناتی ہیں۔


Like it? Share with your friends!

1

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *