
گزشتہ کچھ عرصے سے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافے سے ہر کوئی پریشان ہے، ایسے حالات میں عالمی وبا کورونا کے سبب لاک ڈاؤن نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی اور اچھے اور پڑھے لکھے افراد بھی نوکری نے ہونے اور محدود وسائل کی وجہ سے معمولی نوعیت کے کاروبار کرنے پر مجبور ہیں۔
اسلام آباد کے علاقے بلیو ایریا میں گھر کی بنی ہوئی بریانی فروخت کرنے والے محمد عمر کمال کو بھی ان کے معاشی حالات بریانی بیچنے لے آئے ہیں۔

محمد عمر کمال نے یونیورسٹی آف بہاولپور سے پولیٹیکل سائنس اور انگریزی جب کہ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات عامہ میں ماسٹرز کرنے کے ساتھ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) اور کینیڈا کی میک گل یونیورسٹی سے انٹرپرائز مینجمنٹ کی ٹریننگ حاصل کی ہے اور وہ پیشے کے اعتبار سے ڈویلپمنٹ پروفیشنل ہیں، مگر بے روزگاری وجہ سے انہوں نے بریانی بیچنے کا کام شروع کیا۔
ان کے مطابق شاید وہ پوری دنیا میں واحد پاکستانی فنڈ ریزنگ ایکسپرٹ ہیں کیونکہ نے فنڈ ریزنگ پر 15 سال کی ریسرچ کر رکھی ہے اور اس پر کتاب بھی لکھی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی یونیورسٹیوں میں فنڈ ریزنگ پڑھائی نہیں جاتی۔

خبر رساں ادارے انڈپینڈنٹ اردوسے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی گاڑی میں گھر کی بنی ہوئی بریانی لاتے ہیں اور اسلام آباد کے مصروف ترین کاروباری علاقے بلیو ایریا میں سیور فوڈز کے پاس “ہوم میڈ بریانی “ کی صدائیں لگا کر چکن بریانی بیچتے ہیں۔
اپنے بریانی کے اسٹال کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ میں یہاں پر اپنے گھر کی بنی چکن بریانی بیچتا ہوں، میں نے لمز اور میک گل سے انٹر پرائز مینجمنٹ کیا ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ گذشتہ چار برس سے بیروزگار تھے اور لوگوں سے مدد مانگ رہا تھے کہ ملازمت یا کنسلٹنسی دے دو، پھر انہوں نے اللہ کے ساتھ اپنا تعلق ٹھیک کیا اور کہا کہ اللہ جی! میں اب تھک گیا ہوں، پھر اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں خیال ڈالا کہ اپنا کام کیا جائے تاکہ لوگوں پر سے میرا انحصار ختم ہو جائے۔

لہذا میں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ کیا ہم فوڈ کا بزنس کر سکتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ بالکل کر سکتے ہیں، ان کی اہلیہ شیف ہیں اور وہ ہی یہ مزیدار بریانی بناتی ہیں سو اس طرح انہوں نے کام کا آغاز کیا۔ان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ کاروبار میں اتنا مزہ ہے۔ میں نے پانچ ہزار روپے سے بنائے گئے 15 ڈبوں سے یہاں کام شروع کیا اور اب میں 30 سے 35 ڈبے روز بیچتا ہوں۔ آج میرے پاس بلینو گاڑی ہے اور مجھے امید ہے کہ میں اگلے سال مرسیڈیز خریدوں گا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ یہاں سے کام شروع کرکے میں نے پی ڈبلیو ڈی کے علاقے میں ایک آؤٹ لیٹ لیا ہے، جہاں ہم باربی کیو، گھر کی بنی ہوئی آئس کریم اور بریانی بھی بیچیں گے مگر میں پھر بھی یہاں ضرور آؤں گا چاہے پانچ یا چھ ڈبے فروخت کرنے کے لیے ہی آؤں۔ اپنے بیروزگاری کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دو مہینے پہلے تک ان کے دوست گھر چلانے میں ان کی مدد کر رہے تھے مگر اب الحمد اللہ وہ اپنے دوستوں سے پوچھتے ہیں کہ اگر کسی کو ان کی مدد چاہیے تو بتائے۔
گفتگو کے اختتام میں انہوں نے لوگوں کو مشورہ دیا کہ خدا کے لیے مایوسی اور پاکستان کو برا بھلا کہنا چھوڑ دیں، میں پاکستان کی زمین پر کھڑا ہوں اور بہت زیادہ خوش ومطمئن ہوں۔ لوگوں کی منتیں کرنا اور مدد مانگنا چھوڑ دیں۔ میں نے صرف پانچ ہزار روپے سے یہ کاروبار شروع کیا تھا اور اب میں اس سے تین گنا زیادہ کما رہا ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ رزق حلال میں اور محنت میں کوئی شرم نہیں ہے۔ ہمارے بہت سے بھائی، بہن بیرون ملک جا کر اس سے زیادہ چھوٹے موٹے کام کرتے ہیں اگر وہ یہ سب کام یہاں شروع کردیں تو ہمارے ملک سے بیروزگاری کا مکمل خاتمہ ہو جائے۔
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر انجینئر عبدالملک کی اسٹوری بھی بہت وائرل ہوئی تھی جو اعلیٰ ڈگری، کئی زبانوں پر عبور لیکن نوکری نہ ملنے کی صورت میں تربوز کے شربت کا اسٹال لگانے پر مجبورہے۔چین سے ایئرو ناٹیکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرنے کے باوجود یہ نوجوان بیروزگاری کی وجہ سے کراچی کے علاقے میں “محبت کا شربت “ کے نام سے تربوز کا شربت بیچتا تھا لیکن سوشل میڈیا پر ان کی اسٹوری وائرل ہونے پر اداکار فیروز خان نے انہیں ملازمت کی پیش کش کردی تھی۔
اس سے قبل بھی سوشل میڈیا پرکراچی کے اور نوجوان ارسلان احمد کی کہانی بھی وائرل ہوئی تھی جنہوں نے جامعہ کراچی سے اکنامکس میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے لیکن اچھی ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے انہوں نے لمکا اور فرینچ فرائز کا اسٹال لگالیا تاکہ اپنے گھر کو سپورٹ کرسکیں۔
Story Courtesy: Independent Urdu
0 Comments