انسان کے اندر لگن ہو تو کچھ ناممکن نہیں، معیز شوکت مثال بن گئے


0

ہمارے معاشرے میں اگر جسمانی طور پر معذور افراد کو ان کی قابلیت اور صلاحیت کے لحاظ سے مواقع فراہم کئے جائیں، ان کی معذوری کو دیکھ کر انہیں نہ پرکھا جائے تو وہ بھی ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں اور اس کی مثال ہڈیوں کی بیماری میں مبتلا موٹیویشنل اسپیکر شوکت معیز جیسے نوجوان ہیں جو پاکستان میں تعلیم عام کرنے کا خواب دیکھتے ہیں اور دوسروں کی مدد کے لیے ہر وقت کوشاں ہیں۔

خبر رساں ادارے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں معیز شوکت نے کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ انسان کے اندر لگن ہو تو انسان آگے بڑھ بھی سکتا ہے اور کامیاب بھی ہو سکتا ہے۔ اگر لگن ہی نہیں ہے تو وہ آگے نہیں جا پائے گا۔ ان کے بقول یہ موٹیویشن تب آتی ہے جب آپ کے سامنے مقاصد ہوں اور آپ کے پاس خواب ہوں۔ اس لئے ہمیشہ بڑا سوچو چاہے وہ سوچ پوری نہ ہو۔

Image Source: Instagram

لاہور سے تعلق رکھنے والے معیز شوکت 21 برس کے ہیں اور ایسے لوگوں کے لیے ایک ایسی زندہ مثال ہیں جو سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ناامیدی کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔

معیز شوکت بچپن میں عام بچوں کی طرح بھاگتے دوڑتے تھے مگر انہیں جوڑوں کی ایک ایسی بیماری ہوئی جو دنیا میں بہت کم بچوں کو ہوتی ہے۔ اس بیماری کا نام ہے ایف او پی ہڈیوں کی اس بیماری میں مبتلا شخص بغیر سہارے چل پھر نہیں سکتا اور لیٹنے کے لیے بھی اسے ایک خاص بستر کی ضرورت ہوتی ہے۔اس بیماری کے باوجود اس نوجوان کو قدرت سے کوئی شکوہ نہیں۔

اے لیول کرنیوالے معیز شوکت نہ صرف ایک موٹیویشنل اسپیکر ہیں بلکہ یوتھ امبیسیڈر (نوجوانوں کے سفیر) بھی ہیں۔ انہیں بہت سے قومی و بین الاقوامی ایوارڈز مل چکے ہیں، ٹیڈ یکس اسپیکر بھی ہیں، ایک کتاب بھی لکھ رہے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ ان کا نام اب گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی شامل ہو۔

عام نوجوانوں کی طرح معیز کی زندگی کا سفر بھی اتنا آسان نہیں تھا۔ جب اسکول جانا شروع ہوئے تو بچوں نے انہیں مذاق کا نشانہ بنایا اور ان کے مختلف نام رکھے جو انہیں اچھے نہیں لگتے تھے مگر پھر ان کی والدہ نے انہیں سمجھایا کہ خدا نے انہیں دو کان دئیے ہیں جو بات بری لگے اسے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیا کرو جبکہ جو بات اچھی لگے اسے ایک کان سے سن کر اپنے اندر لے جایا کرو۔

معیز نے بتایا کہ جب وہ بڑے ہوئے تب بھی بہت سے لوگ انہیں ایسے ملے جنہوں نے ان کا حوصلہ پست کرنے کی بہت کوشش کی لیکن ان کا حوصلہ ان کے کمرے نے بڑھایا، وہ کہتے ہیں کہ مجھے لگتا تھا جیسے میرا کمرہ مجھ سے باتیں کرتا ہے۔ میرے کمرے کی چھت نے مجھ سے کہا کہ اچھا سوچو اور اونچی سوچ رکھو۔ میرے کمرے کی گھڑی نے مجھ سے کہا تمہارا ہر سیکنڈ ہر منٹ ہر گھنٹہ قیمتی ہے اسے ضائع مت ہونے دو۔ میرے کمرے کے کیلنڈر نے مجھے کہا تمہارا ہر دن ہر مہینہ ہر سال قیمتی ہے اسے ضائع مت ہونے دو اور میرے کمرے کی کھڑکی نے مجھے کہا یہاں بہت سے لوگ تمہارا کا حوصلہ پست کریں گے لیکن تم نے پیچھے نہیں دیکھنا۔ تمہارا کام ہے آگے دیکھنا اور آگے بڑھنا۔

معیز شوکت کے خیال میں ہماری نوجوان نسل میں موٹیویشن کی کمی ہے۔ میں کاؤنسلر بھی ہوں اور فری مینٹل ہیلتھ ہیلپ لائن بھی چلاتے ہیں جس میں مفت کاؤنسلنگ کرتے ہیں۔ ہمیں جو بھی نوجوان فون کرتے ہیں وہ یہی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس موٹیویشن نہیں ہے۔ اس پر ہمارا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ اپنی زندگی میں بڑا سوچیں۔ ہم بہت چھوٹا سوچ رہے ہوتے ہیں۔ جب بڑا سوچیں گے تو موٹیویشن خود بخود آجائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ امید کے لیے میں ان سے کہتا ہوں کہ اپنے رب سے تعلق جوڑیں امید خود بخود پیدا ہو جائے گی۔

مزید پڑھیں: کراچی میں نابینا بہن بھائی کا کامیاب آن لائن فوڈ بزنس

انہوں نے نوجوانوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ڈر سے ڈرنا نہیں۔ ڈر سے لڑنا ہے ، آگے بڑھنا ہے اور کامیاب بننا ہے۔ آپ جب اپنے ساتھ ہمدردی رکھیں گے، اپنے ساتھ محبت کریں گے تو پھر ہی دوسروں کے ساتھ ہمدردی کرپائیں گے۔ اور دوسروں کے ساتھ محبت کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ کبھی ہمت نہ ہاریں۔ اگر آپ کے پاس ہمت ہے تو آپ زندگی میں کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

معیز شوکت کی زندگی کا مقصد ملک میں تعلیم کو عام کرنا ہے کیونکہ امیروں کے بچے تو پڑھ رہے ہوتے ہیں لیکن ہماری غریب عوام اپنے بچوں کو نہیں پڑھاتے کیونکہ وہ اسکولوں کی فیس نہیں ادا کر سکتے۔ اس لئے وہ تعلیم کو عام کرنا چاہتے ہیں تاکہ ملک ترقی کرے۔

معیز شوکت کی طرح اور بھی ایسے نوجوان ہیں جنہوں نے اپنی ہمت سے معذوری کو مجبوری نہیں بنایا۔صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والا 21 سالہ صفدر پیشے کے اعتبار سے ایک مالی ہے 10 برس کی عمر میں وہ تیز بخار کے باعث جسمانی معذوری کا شکار ہوگئے تاہم انہوں نے ہمت اور حوصلہ قائم رکھا اور آج باغبانی کرکے حق و حلال کی روٹی کھا رہا ہے۔ وہ یہ کام محض پیسوں کے لئے نہیں کررہے بلکہ انہیں غاغبانی کا بے انتہاء شوق ہے۔ یہی نہیں ہمارے ملک کئی ایسے نوجوان ہیں جو جسمانی معذوری کا شکار ہیں لیکن کامیابی کے ساتھ اپنے خوابوں کو پورا کررہے ہیں، انہی میں ایک نام 29 سالہ گلزار حسین کا بھی ہے، جنہوں نے اپنی دونوں ٹانگیں اور ایک ہاتھ 1999 میں ایک دھماکہ میں کھو دی تھیں۔ لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری، اس باہمت نوجوان نے اپنی ناصرف تعلیم مکمل کی بلکہ وہ آج اپنے علاقے کے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر رہے ہیں۔

Story Courtesy: Independent Urdu


Like it? Share with your friends!

0

What's Your Reaction?

hate hate
0
hate
confused confused
0
confused
fail fail
0
fail
fun fun
0
fun
geeky geeky
0
geeky
love love
0
love
lol lol
0
lol
omg omg
1
omg
win win
0
win

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Choose A Format
Personality quiz
Series of questions that intends to reveal something about the personality
Trivia quiz
Series of questions with right and wrong answers that intends to check knowledge
Poll
Voting to make decisions or determine opinions
Story
Formatted Text with Embeds and Visuals
List
The Classic Internet Listicles
Countdown
The Classic Internet Countdowns
Open List
Submit your own item and vote up for the best submission
Ranked List
Upvote or downvote to decide the best list item
Meme
Upload your own images to make custom memes
Video
Youtube, Vimeo or Vine Embeds
Audio
Soundcloud or Mixcloud Embeds
Image
Photo or GIF
Gif
GIF format