کوئٹہ پولیس نے گاڑی نہ روکنے پر طالب علم کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا


1

کوئٹہ پولیس کے ایگل اسکواڈ کی مبینہ طور پر بدھ کی رات سریاب روڈ پر ایک گاڑی پر اسٹریٹ فائرنگ کرکے ایک کم عمر طالب علم فیضان جٹک کو ہلاک اور اس کے دوستوں کو زخمی کردیا۔ مقتول طالب علم کے لواحقین نے احتجاج کرتے ہوئے ایگل اسکواڈ کے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق ایگل اسکواڈ کے عہدیداروں نے سریاب روڈ پر ایک مشتبہ گاڑی کو رکنے کے لئے اشارہ کیا۔ اسنیپ چیکنگ کے دوران ڈرائیور کے کار نہ روکے جانے پر پولیس کی جانب سے گاڑی پر فائرنگ کی گئی۔ فیضان کے اس اندوہناک قتل کے واقعے نے سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر احتجاج شروع کردیا ہے۔ لوگ گذشتہ رات اس بہیمانہ قتل کے خلاف کارروائی کے مطالبہ کرتے ہوئے ” #جسٹس فور فیضان جٹک” کا ھیش ٹیگ استعمال کر رہے ہیں۔

Image Source: Twitter

ابھی تک ، اس واقعے کے بارے میں مزید کوئی تفصیل سامنے نہیں آ سکی ہے۔ تاہم ادھر مظاہرین نے ایگل اسکواڈ کے اہلکاروں سے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

واضح رہے پولیس نے شہر کی سڑکوں پر گشت کرنے کے لئے کوئٹہ میں ایگل اسکواڈ کو ایلیٹ فورس کے طور پر قائم کیا تھا۔ پچھلے کچھ سالوں میں ، ایگل اسکواڈ کے اہلکاروں کی جانب سے شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے متعدد واقعات پہلے بھی دیکھنے میں آچکے ہیں۔

اس موقع پر مظاہرین نے الزام عائد کیا کہ نام نہاد ایگل فورس کوئٹہ کی عوام کے تحفظ کے بجائے ان کے لئے خطرہ بن گئی ہے۔ اس کے علاوہ ، بہت سے سوشل میڈیا صارفین کوئٹہ پولیس کے ایگل اسکواڈ پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔ یہاں سوال اٹھتا ہے کہ ایگل اسکواڈ کے اہلکار اسنیپ چیکنگ کے دوران شہریوں پر سیدھے فائر کیسے کرسکتے ہیں؟ کیا وہ مناسب طریقے سے تربیت یافتہ کیوں نہیں ہیں اور کیا وہ اختیارات کا ناجائز فائدہ آٹھا رہے ہیں؟ کوئٹہ میں ایسی غیر تربیت یافتہ اور عوام دشمن قوت کو کام کرنے کی اجازت کیوں دی گئی ہے؟

خیال رہے پاکستان میں اس طرح کے کیسسز جن میں افسران مشتبہ شخص یا ملزمان بے رحمی سے موت کے مارتے پیٹتے ہیں یا انہیں گرفتار کرنے کے بجائے فائرنگ کا نشانہ بناتے ہیں، اس نے ہمارے پولیس کے محکمے کو کافی داغدار کیا ہے، اگرچے اس طرح کے واقعات آٹے میں نمک کے برابر ہوتے ہیں لیکن ان کے غیرانسانی اقدامات کے باعث پورے محکمے کی ساکھ متاثر ہوتی آئی ہے۔ کئی افسران جو ایمانداری کے ساتھ اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، انہیں بھی ایسے چند مٹھی بھر افسران کے باعث شرمندگی اٹھانی پڑھتی ہے۔ چنانچہ پھر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پولیس اگر کوئی اچھا کام کرنے لگے، تو اسے پھر شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، جیسا حال ہی میں لاہور میں پولیس اہلکار پلاس کے ذریعے ایک چور کے ناخنوں سے بلیڈ نکال رہے تھے، لیکن کسی نے ویڈیو بنانا کر اپ لوڈ کردی کہ پولیس اہلکار سڑک پر شہری کے ناخن پلاس سے کھینچ رہے ہیں۔

پچھلے سال اسی طرح کے ایک واقعے میں ، اسلام آباد میں انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) کے اہلکاروں نے 21 سالہ لڑکے کو گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق ، یہ شخص محض ایک معصوم طالب علم تھا اور اسے بلا وجہ گولی مار دی گئی تھی۔

یہی نہیں 10 فروری 2021 کو سندھ پولیس نے جامشورو میں واقع ہاسٹل سے سندھ یونیورسٹی کے ایک طالب علم کو اٹھایا گیا تھا اور پھر وہ تب سے لاپتہ رہا۔ ایک ماہ بعد ، پولیس نے مبینہ مقابلے میں اسے گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ وہ کاریں چھیننے والے گینگ کا حصہ تھا ، تاہم ، اہل خانہ کا موقف ہے کہ وہ صرف ایک معصوم طالب علم تھا۔


Like it? Share with your friends!

1

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *