
اتوار کو سبکدوش ہونے والی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے منگل کے روز دعویٰ کیا کہ انہیں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے نگراں وزیراعظم کے تقرر کے لیے ناموں کی تجویز سے متعلق ’’کوئی خط‘‘ موصول نہیں ہوا۔
تفصیلات کے مطابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پیر (کل) عمران خان اور میاں شہباز شریف کو خط لکھا، جس میں آئین کے آرٹیکل 224-اے(1) کے تحت نگراں وزیر اعظم کے طور پر تقرری کے لیے موزوں افراد کے نام تجویز کرنے کی درخواست کی۔

صدر مملکت کے خط میں کہا گیا کہ نگراں وزیر اعظم کا تقرر صدر پاکستان آئین کے آرٹیکل 224-اے(1) کے مطابق وزیراعظم اور سبکدوش ہونے والے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے کریں گے۔
یہ سب کچھ اس وقت شروع ہوا، جب وزیراعظم عمران خان کو اتوار کو عدم اعتماد کے ووٹ کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے فیصلہ دیا کہ یہ غیر ملکی سازش کا حصہ ہے اور اس لیے یہ “غیر آئینی” ہے۔ بعدازاں صدر عارف علوی نے وزیراعظم کی درخواست پر قومی اسمبلی کو تحلیل کر دیا تاکہ ملک میں نئے انتخابات کرائے جا سکیں۔

اس سلسلے میں منگل کو اسلام آباد میں میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف نے کہا کہ انہیں ایسا کوئی خط موصول نہیں ہوا۔ “جیسا کہ وہ ابھی بات کررہے ہیں، سرکاری طور پر انہیں کوئی خط موصول نہیں ہوا ہے”۔
شہباز شریف نے مزید کہا کہ وہ پہلے اپنی قانونی ٹیم اور اپوزیشن پارٹنرز سے رابطہ کریں گے اور پھر خط موصول ہونے کے بعد عبوری وزیراعظم کے لیے نام بھیجیں گے۔ لیکن عارف علوی اور عمران خان نیازی نے آئین کو پامال کیا اور انہوں نے آئین کے ساتھ کھیلا ہے۔ ’’اس معاملے پر پہلے فیصلہ لیا جانا چاہیے۔ باقی باتیں بعد میں دیکھیں گے۔‘‘

اتوار کو ہونے والی قومی اسمبلی کی کارروائی اور اس “دھمکی والے خط” کے بارے میں بات کرتے ہوئے جس کی بنیاد پر ڈپٹی اسپیکر نے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد ووٹنگ کے بغیر مسترد کر دی، شہباز نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کے فیصلے نے پارلیمنٹ کے 197 ارکان کو “غدار” قرار دیا ہے۔
آج میں چاہتا ہوں کہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی معاملے کی وضاحت کریں۔ اگر ہم نے غداری کی ہے تو ثبوت لائیں اور عوام کو دکھائیں تاکہ سب کچھ واضح ہو جائے۔
اس موقع میاں شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ اپوزیشن وزیراعظم عمران خان پر اقتدار میں آنے کے دن سے تنقید کررہی ہے۔ “ہم وزیراعظم کے خلاف تین سال سے زیادہ عرصے سے احتجاج کر رہے ہیں۔ لیکن جس دن ہم نے آئینی راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا، ہمیں غدار قرار دیا گیا۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسٹیبلشمنٹ آج ہی وضاحت کرے کہ کیا انہوں نے “قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے منٹس پر دستخط کیے ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ اپوزیشن نے غیر ملکی سازش میں کردار ادا کیا ہے”۔ کیا اسٹیبلشمنٹ نے انہیں منظور کیا؟ کیا ان کی جانچ کی گئی؟ یہ وہ جواب ہیں جو آج قوم جاننا چاہتی ہے۔
0 Comments