وزیراعظم کا جنسی زیادتی اور پردے پر بیان موضوع بحث بن گیا


1

پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین آج بھی اپنے آپ کو محفوظ کیوں نہیں سمجھتی ہیں، اس کی کئی وجوہات بتائی جاتی ہیں لیکن وزیراعظم پاکستان عمران خان نے خواتین اور بچوں سے پیش آنے والے جنسی زیادتی کی جرائم میں اضافے کی وجہ فحاشی کو قرار دی ہے۔ اس بیان نے ملک بھر میں ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے کہ آیا وزیراعظم کا یہ بیان، ان حالات میں دینا درست تھا یا نہیں؟

تفصیلات کے مطابق اتوار کے روز حکومت کی جانب سے ایک ٹیلی تھون کا انعقاد کروایا گیا تھا، جس میں عوام کو اجازت تھی کہ وہ وزیراعظم عمران خان سے براہ راست سوال کرسکیں لیکن اس ہی دوران ایک شہری کے سوال پر وزیراعظم کے جواب نے سب کو حیرت میں مبتلا کردیا۔ ابتداء میں وزیراعظم کی طرف سے جہاں خواتین اور بچوں کے خلاف بڑھتے ہوئے جنسی جرائم کی مذمت کی وہیں سوال کی وضاحت میں دیئے گئے جواب سے گویا انہوں نے اس سنگین مسئلے کی اہمیت کو ہی کم کردیا ہو۔

Image Source: Twitter

وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ جنسی جرائم میں اضافے کی وجہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی فحاشی ہے، ہر چیز کے کچھ نہ اثرات ہوتے ہیں، آگر فحاشی بڑھائیں گے تو یقیناً اس کے کچھ تو اثرات مرتب ہونگے۔ وزیراعظم نے ملک میں فحاشی کے کلچر کو مغرب اور بھارت کی درآمد قرار دیتے ہوئے جہاں انہوں نے جنسی جرائم کو فحاشی سے جوڑا وہیں یہ بھی اشارہ کیا کہ اگر خواتین پردہ اختیار کریں، تو ان کو کسی حدتک روکا جاسکتا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کے مطابق پردہ ایسے لوگوں کے جنسی اشتعال میں کمی کا سبب بنتا ہے، جن میں جنسی جذبات کو قابو کرنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے، گویا وزیراعظم نے جنسی استحصال کو اس انداز میں بیان کیا، جس میں لگتا یوں ہے کہ خواتین کے ساتھ جنسی استحصال کی زیادہ ذمہ دار خود خواتین ہوتی ہیں۔

کسی بھی ملک کا وزیراعظم اس ملک کی عوام کے جان و مال کے تحفظ کا ضامن ہوتا ہے، وہ ملک میں ناصرف سخت قوانين تشکیل دیتا ہے بلکہ ان پر اتنی ہی سختی سے اپنی ذمہ داری کے طور پر عمل بھی کرواتا ہے، لیکن وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ایسا بیان آنا یقیناً ایک حیران کن بات تھی، کیونکہ وزیراعظم کی جانب سے اگر ایسا موقف اختیار کیا جائے گا تو پھر خواتین اپنے تحفظ کے لئے کس سے امیدیں وابستہ کریں۔

وزیراعظم عمران خان کا یہ بیان سوشل میڈیا پر موضوع بحث بنا ہوا، جس پر عوام کی جانب سے ناصرف شدید ردعمل ظاہر کیا جا رہا ہے بلکہ افسوس اور مایوسی کا بھی اظہار کیا جارہا ہے۔

یقیناً خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ملک کا ایک بڑا مسئلہ بن کر سامنے آیا ہے، جسے روکنا ایک مشکل معاملہ ہوسکتا ہے، لیکن وزیراعظم عمران خان کا یہ غیر سنجیدہ بیان ایک بھڑکی ہوئی آگ پر تیل کا کرگیا، وزیراعظم اس پر قوم کو بتا سکتے تھے کہ، یہ ایک مشکل جنگ ہم لڑ رہے ہیں، اس کے خلاف اچھی قانون سازی کی ہے، اپنی دیگر کاوشوں کا تذکرہ کرسکتے تھے، خواتین اور بچوں کو تحفظ کا یقین دلاتے لیکن اپنی ایک ناکامی کو چھپانے کے لئے زیادتی کا تعلق فحاشی سے جوڑنا دیا گیا۔

اگرچے وزیراعظم عمران خان کے بیان کو درست مان لیا جائے، تو یہاں پھر کچھ بنیادی سوالات بھی جنم لیتے ہیں، جن میں یہ، کیا ملک میں پردہ یا نقاب پہننے والی خواتین کے ریپ نہیں ہو رہے ہیں؟ کیا ملک میں تین اور چار سال کی بچیوں کے ریپ نہیں ہو رہے ہیں، کیا اب انہیں بھی پردہ کرانا ہوگا؟ اگر ہاں تو پھر پردہ کرانے کی ایک عمر کا تعین کون کرے گا؟ کیا ملک میں لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات نہیں ہوتے ہیں، لہذا انہیں بھی پردے کی ضرورت ہے؟

Image Source: Instagram

یہ چند وہ بینادی سوالات ہیں، جن کے جوابات آج ہر ایک شہری جاننا چاہتا ہے، بلاشبہ بحثیت مسلمان پردہ ہمارے لئے اولین ترجیح ہے اور ہونی بھی چاہئے لیکن ایک سنگین مسئلہ ، جس نے سب طبقے کے لوگوں کو متاثر کیا، مختلف پہناوے اختیار کرنے والوں کو اپنا نشانہ بنایا ، کسی جگہ کو محفوظ نہ رہنے دیا ہو، اس کو پردے سے جوڑ کر معاملے کو حل نہیں کیا جاسکتا ہے، جنسی زیادتی ایک ذہنی سوچ ہے، جس کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔

یاد رہے کچھ عرصہ قبل سی سی پی او لاہور کی جانب سے سیالکوٹ موٹر وے پر جنسی زیادتی کے معاملے پر چونکا دینے والا بیان سامنے آیا تھا، جس میں انہوں نے خاتون کو کہا تھا کہ انہیں رات کے وقت دوسرا راستہ اختیار کرنا چاہئے تھا۔ جس پر عوامی حلقوں کی جانب سے انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔


Like it? Share with your friends!

1

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *