کراچی،14 اپریل 2025: پاکستان میں نفسیاتی تجزیاتی سوچ کو فروغ دینے کی ایک پرعزم کوشش میں آغا خان یونیورسٹی کی فیکلٹی آف آرٹس اینڈ سائنسز (FAS) نے یونیورسٹی آف ایکسیٹر کے شعبہ نفسیات کے ساتھ شراکت داری کی ہے تاکہ ایک بین الاقوامی کانفرنس کی میزبانی کی جا سکے جس کا عنوان “مغرب سے آگے کا سفر: کیا نفسیاتی تجزیہ پاکستان میں نئی جڑیں پکڑ سکتا ہے؟” یہ کانفرنس آغا خان یونیورسٹی کے اسٹیڈیم روڈ کیمپس، کراچی میں منعقد ہوئی۔
نفسیاتی تجزیہ ایک ایسا علاج ہے جو نہ صرف ذہنی صحت کے مسائل سے نجات فراہم کرتا ہے بلکہ لوگوں کو اپنے بارے میں زیادہ جاننے اور زندگی میں بہتر فیصلے کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں نفسیاتی تجزیے کی کوئی باقاعدہ تاریخ موجود نہیں لیکن ملک بھر میں اس میں دلچسپی رکھنے والے ماہرین اور نظریہ ساز موجود ہیں۔ تین روزہ کانفرنس ان تمام افراد، بشمول دیگر معالجین، محققین اور فنکاروں کو ایک ساتھ لانے کے لیے منعقد کی گئی تاکہ نفسیاتی تجزیہ کی مزید تحقیق اور مشق کے لیے ایک جامع جگہ بنائی جا سکے۔

“نفسیاتی تجزیے کو اکثر صرف مغرب سے وابستہ سمجھا جاتا ہے، لیکن اس کی گفتگو، فردیت، اور لاشعور پر زور سرحدوں کو نہیں مانتا،”
ڈاکٹر ڈوان روسیل، فیکلٹی آف آرٹس اینڈ سائنسز میں ایسوسی ایٹ ڈین آف ریسرچ اور ایسوسی ایٹ پروفیسر، اور کانفرنس کے مرکزی منتظم نے کہا کہ” نفسیاتی تجزیہ ایک شہری مظہر ہےاور کراچی ایک شہری میگا سٹی ہے۔نفسیاتی تجزیے کو اکثر صرف مغرب سے وابستہ سمجھا جاتا ہے لیکن اس کی گفتگو، فردیت اور لاشعور پر زور سرحدوں کو نہیں مانتا ۔”
مقررین میں ممتاز مقامی مفکرین اور ماہرین کے ساتھ ساتھ برٹش سائیکوانیلیٹک ایسوسی ایشن اور نیو لکانین اسکول کے ارکان بھی شامل تھے۔ ان کا مقصد پاکستان میں نفسیاتی تجزیے کی موجودگی کے آثار کی شناخت اور تفہیم تھا۔ بات چیت پاکستان اور اس کی بیرون ملک آبادی سے متعلق کلینیکل اور نظریاتی خیالات پر بھی مرکوز رہی اور ملک میں نفسیاتی تجزیے کی تربیتی پروگراموں کے قیام کے امکانات پر بھی غور کیا گیا تاکہ شرکاء کو اس شعبے کے مستقبل کی تشکیل میں حصہ لینے کی دعوت دی جا سکے۔
ڈاکٹر اسٹیفن لیون، ڈین، فیکلٹی آف آرٹس اینڈ سائنسز نے کہا “یہ پروگرام پاکستان میں خاص طور پر کراچی جیسے شہری مراکز میں، نفسیاتی تجزیے پر سنجیدہ علمی فورمز کی بڑھتی لیکن غیر پوری شدہ طلب کا جواب ہے،یہ پاکستان میں لبرل آرٹس کے دائرے میں نئی گفتگو کے لیے جگہ پیدا کرنے کے لیے FAS کے عزم کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ ہمیں اس بانیانہ کوشش کا حصہ بننے پر فخر ہے۔”
0 Comments