
قوالی، گیت، غزل اور کلاسیکل سمیت گائیکی کی ہر صنف پر عبور رکھنے والے استاد نصرت فتح علی خان کو اپنے منفرد انداز گائیکی سے عالمگیر شہرت حاصل ہوئی۔انہوں نے اپنی تمام عمر قوالی کے فن کو سیکھنے اور سیکھانے میں صرف کی، اور صوفیائے کرام کے پیغام کو دنیا کے ہر کونے تک پہنچایا اور اسی بنا پر ان کو خود بے پناہ شہرت نصیب ہوئی۔ نصرت فتح علی خان نے کلاسیکل موسیقی کو ایک نیا رنگ دیا، اور اس کو جدید میوزک کے منفرد انداز میں کچھ اس طرح پیش کیا کہ ان کے گانے ہر عمر کے لوگوں میں مقبول ہوگئے۔انہوں نے صوفی گلوکاری کو بھی نئے انداز سے پیش کیا جس کے باعث ان کے کلام پاکستان سمیت امریکہ اور یورپ جیسے ممالک میں بھی سنے گئے۔
لیجنڈری قوال کی وفات کے 25 برس بعد بھی ان کی موسیقی کا سحر آج بھی ویسا ہی طاری ہے اور ان کی بے پناہ شہرت کے باعث امریکہ کے معروف جریدے رولنگ اسٹون نے ان کو تاریخ انسانی کے 200 عظیم ترین گلوکاروں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔

اس حوالے سے رولنگ اسٹون نے استاد نصرت فتح علی خان کا تعارف کراتے ہوئے انہیں ’شہنشاہ قوالی‘ کہا اور انہیں قوالی کی سلطنت کا آئیکون قرار دیتے ہوئے صدیوں پر محیط ان کے خاندانی وراثت کی تعریف کی۔

میگزین کے مطابق نصرت فتح علی خان نے اپنی بے مثال گائیکی سے پوری دنیا میں لوگوں کے دل جیتے اور خصوصی طور پر اسی کی دہائی میں پیٹر گیبریئل کیئے ’ریئل ورلڈ لیبل‘ کیلئے ان کی ریکارڈنگ اور پرفارمنس نے لوگوں کو بہت متاثر کیا۔
امریکی جریدے میں نصرت فتح علی خان کے مشہور مداحوں میں شہرہ آفاق گلوکارہ میڈونا بھی شامل تھیں جبکہ ایڈی ویڈر نے ’ڈیڈ مین واکنگ‘ کو ان کے ساتھ مل کر گایا۔ مضمون نگار نے مزید لکھا ہے کہ جیف بکلے نصرت فتح علی خان کو ’میرا ایلوس‘ کہتے تھے اور انہوں نے استاد کے ساتھ اچھے طریقے سے کام کرنے کے لئے اردو زبان بھی سیکھی۔

مذکورہ فہرست میں استاد نصرت فتح علی خان کو 91 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ عظیم ترین گلوکاروں کی فہرست میں انڈیا کی مشہور گلوکارہ لتا منگیشکر نے بھی جگہ پائی ہے اور رولنگ اسٹون نے ان کو ’پلے بیک گلوکاری کی ملکہ‘ اور ’سروں کی ملکہ‘ قرار دیا ہے۔اس فہرست میں مصر کی مایہ ناز گلوکار ام کلثوم کو بھی شامل کیا گیا ہے جب کہ جدید دور کی گلوکارائیں لیڈی گاگا، ٹیلر سوئفٹ، آریانا گرانڈے اور بلی آئلش جیسی نئی گلوکارائیں بھی شامل ہیں۔
یاد رہے کہ نصرت فتح علی خان گنیز ورلڈ ریکارڈ میں جگہ بنانے کے ساتھ کئی قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز اپنے نام کرچکے ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے بھی استاد نصرت فتح علی خان کو کئی اعزازت سے نوازا گیا، 1987 میں انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس (تمغہ حسن کارکردگی) اور پاکستان فلم انڈسٹری اور موسیقی کی دنیا میں کی گئی خدمات پر انہیں نگار ایوارڈ سے بھی نوازا گیا، اس کے علاوہ ان کو یونیسکو کی جانب سے دئیےجانے والے موسیقی کے انعام کے لیے بھی نامزد کیا گیا۔
مزید پڑھیں: نصرت فتح علی خان جیسا آرٹسٹ صدیوں میں پیدا ہوتا ہے، اجے دیوگن
ان کی قوالی ’دم مست قلندر علی علی‘ کو عالمی مقبولیت حاصل ہے اس قوالی کے منظر عام پر آتے ہی نصرت فتح علی خان کی عالمی شہرت میں کئی گنا اضافہ ہوا۔میری زندگی ہے تو، کسی دا یار نا بچھڑے، تم اک گورکھ دھندا ہو، یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے، دل لگی، اللہ ھو اور وہی خدا ہے سمیت کئی قوالیاں آج بھی لیجنڈری گلوکار کو زندہ کیے ہوئے ہیں۔شہرۂ آفاق قوال 13 اکست 1997 میں 49 برس کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے کے باعث اپنے مداحوں کو خیر آباد کہہ کر خالق حقیقی سے جاملے لیکن آج بھی ان کی آواز لوگوں کے کانوں میں رس گھول رہی ہے۔
0 Comments