خلائی تحقیقات پر معصوم ذہنوں کے دلچسپ سوالات


0

چوتھی کلاس کے بچوں نے خلائی مشن اور خلابازوں سے متعلق علوم میں دلچسپی دکھائی اور سوالات کئے تو خلائی امور کے عالمی ماہرین اور خلابازوں نے جوابات دے کر بچوں کو حیران کر دیا۔

کراچی کے ایک نجی اسکول “کارنر اسٹونز “کے چوتھی کلاس کے طالب علم جن کی عمر 9 سے 10 سال کے درمیان ہے کےخلاء سے متعلق سوالات ان کی سائنس کی ٹیچر نےٹوئٹر پر شیئر کرکے خلابازوں اور خلائی اداروں کو ٹیگ کیے تھے۔ جس کے بعد مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے عالمی خلابازوں اور سائنسدانوں نے پاکستانی طلبہ کے سوالوں کے جوابات دے دئیے۔

تفصیلات کے مطابق بچوں کی سائنس کی ٹیچر ایمن فیصل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنی کلاس کے 6 طلبہ کے سوالات ان کی عمروں کے ساتھ ایک خط کی صورت میں لکھ کر اس خط کی تصویر ٹوئٹر پر شیئر کی تھی اور ساتھ ہی انہوں نے بچوں کی جانب سے خلابازوں اور خلاء سے متعلق ان کے خیالات کو بھی پیش کیا تھا۔ اس خط میں ٹیچر نے اپنے طلبہ کی جانب سے لکھا تھا کہ وہ اپنی کتابوں میں خلائی اداروں، خلائی تحقیقات اور خلابازوں سے متعلق پڑھتے آرہے ہیں اور یہ کہ وہ ان کے کارناموں سے بھی متاثر ہیں۔

ٹیچر نے آخر میں بچوں کی طرف سے یہ بھی لکھا کہ ہمیں آپ کے جوابات کا شدت سے انتظار رہے گا اور کیا ہم ناسا کا دورہ کرسکتے ہیں؟

ٹیچر نے اپنی اس مذکورہ ٹوئٹ میں امریکی خلائی ادارے ناسا سمیت اس کے ذیلی اداروں اور ریسرچ سینٹرز سمیت خلابازوں کو بھی ٹیگ کیا تھا۔ جبکہ انہوں نے ٹوئٹر صارفین سے بھی گزارش کی تھی کہ ان کی ٹوئٹ کو زیادہ سے زیادہ شیئر کیا جائے تاکہ ان کے طلبہ کے جوابات انہیں مل جائیں۔

خاتون ٹیچر کی جانب سے خط کو ٹوئٹر پر شیئر کیے جانے کے بعد درجنوں افراد نے ان کی ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کیا اور ساتھ ہی ٹوئٹر صارفین نے ان کے خط میں پوچھے گئے سوالوں کے جوابات دینے کے لیے خلابازوں ، سائنسدانوں اور خلائی تحقیقاتی اداروں کو بھی مینشن کیا۔

لوگوں کی جانب سے سائنسدانوں اور اداروں کو مینشن کیے جانے کے بعد پاکستانی طلبہ کو سائنسدانوں اور خلابازوں کی جانب سے ٹوئٹر پر جوابات بھی دئیےگئے۔

خط میں 10 سالہ پاکستانی طالبہ علیشا نے سوال کیا تھا کہ خلاء میں جانے والی اسپیس شپ میں کون سا ایندھن استعمال کیا جاتا ہے؟


علیشا کو خاتون امریکی سائنسدان ایملی کیلنڈرلی نے جواب دیا کہ خلاءکو بھیجے جانے والے راکٹس میں راکٹ میں آر پی ون کہلائے جانے والا فیول لکوڈ آکسیجن کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے اور پھر روانگی کے وقت اس میں آگ لگاکر راکٹ کو خلاء میں بھیجا جاتا ہے۔

اسی طرح 10 سالہ مناہل نے سوال کیا کہ انہیں امریکی خلائی ادارے ناسا کا حصہ بننے کے لیے کیا تعلیم حاصل کرنی چاہئیے؟


مناہل کو سائنسدان ایملی کیلنڈرلی نے ہی جواب دیا اور انہیں بتایا کہ ناسا کو ہر طرح کی تعلیم حاصل کرنے والے افراد کی ضرورت پڑتی ہے، تاہم زیادہ تر سائنس اور انجنیئرنگ یعنی سائنس، ٹیکنالوجی، انجنیئرنگ اینڈ میتھس (اسٹیم) کی ڈگری حاصل کریں تو اچھا ہے۔

خاتون سائنسدان کے مطابق اس کے علاوہ انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور ہیومن ریسورس (ایچ آر) سمیت اکائونٹس میں بھی ناسا کو لوگوں کی ضرورت پڑتی ہے، تاہم اس کے لیے سب سے اہم شرط یہ ہے کہ درخواست گزار کا امریکی شہری ہونا لازمی ہے۔

ہانیہ نے سائنسدانوں سے سوال کیا تھا کہ کیا یہ سچ ہے کہ مشتری سیارے میں ہیروں کی بارش ہوتی رہتی ہے؟ جس پر ایملی کیلنڈرلی نے ہی انہیں جواب دیا کہ یقینی طور پر وہاں ہیروں کی بارش ہوسکتی ہے۔
سائنسدان ایملی کیلنڈرلی کا کہنا تھا کہ جو کیمیکل ہیروں کی تیاری کرتے ہیں وہ سیارہ مشتری پر بہت زیادہ مقدار میں موجود ہیں، اس لیے ماہرین کا خیال ہے کہ وہاں ہیرے بھاری مقدار میں ہوسکتے ہیں۔

9 سالہ ماہ رخ کا سوال تھا کہ جب کوئی خلاءکی جانب سفر کرتا ہے تو اس شخص کا رد عمل کیسا ہوتا ہے؟ جس پر انہیں خلاباز کرس ہیڈ فیلڈ نے جواب دیا کہ وہ دو بار خلاء کی جانب سفر کر چکے ہیں اور ایسا کرنے پر وہ خود کو خوش قمست سمجھتے ہیں۔

9 سالہ انابیہ نے سوال کیا کہ خلاء میں اب تک کی سب سے متاثر کن دریافت کیا ہے؟ جس پر انہیں سائنسدان ایملی کیلنڈرلی نے بتایا کہ ناسا ہر وقت خلاء میں نظام شمسی جیسی چیزیں دریافت کرنے میں مصروف ہے اور وہاں بہت ساری چیزیں دریافت بھی ہوچکی ہیں۔

انہوں نے مزید لکھا کہ تاہم ان کی ذاتی رائے کہ اس سے اہم ہمارا اپنا نظام ہے، کیونکہ ناسا ارتھ ہمیں بتاتا ہے کہ کس طرح ماحولیاتی تبدیلی ہماری زمین کو تبدیل کر رہی ہے۔

اسی طرح 10 سالہ ریان نے پوچھا کہ کیا خلابازوں کو خلاءمیں سفر کے دوران اپنی گاڑی کے گم ہونے کا خوف رہتا ہے؟ جس پر انہیں سائنسدان ایملی کیلنڈرلی نے ہی جواب دیا کہ اگرچہ وہ خلاباز نہیں ہیں اور نہ ہی انہوں نے اس طرح ناسا کے ساتھ کام کیا ہے، تاہم ان کا خیال ہے کہ یقیناً ایسے خطرات موجود ہوتے ہوں گے اور ناسا اس ضمن میں اپنے خلابازوں کو تربیت بھی دیتا ہوگا۔

دس سالہ ریان کو خلابازکرس ہیڈ فیلڈ نے خلائی مشن کے راستہ بھٹک جانے سے متعلق سوال پر بتایا کہ انھیں اس بات سے کبھی خوف نہیں آیا کہ خلاء میں ان کا مشن گم ہوجائے گا کیوں کہ زمین قریب ہی ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ انھوں نے خلاء سے لی گئی کراچی کی ایک تصویر بھی شیئرکی اور لکھا کہ کیا آپ اپنا اسکول اس تصویر میں تلاش کرسکتے ہیں؟

سائنسدانوں اور خلابازوں کی جانب سے جوابات دئیے جانے کے بعد ٹیچر نے اگلے ہی روز اپنے طلبہ کو ان کے سوالوں کے جوابات کے پرنٹ دکھائے، جس پر طلبہ حیران رہ گئے۔

ٹیچر ایمن فیصل کے مطابق انہوں نے تمام طلبہ کے جوابات کے لیے الگ الگ خط بنائے اور ہر خط پر طالب علم کا نام لکھا۔ ایک طالبہ نے ان کی رائٹنگ پہنچان لی اور کہا کہ یہ سائنسدانوں نے جوابات نہیں دئیے بلکہ آپ نے خود دئیےہیں، جس پر ٹیچر نے انہیں خط کا لفافہ کھولنے کا کہا تو وہ جواب دیکھ کر حیران رہ گئیں۔ تمام بچوں کو خاتون ٹیچر نے ان کے جوابات کی ٹوئٹس کے پرنٹ نکال کر دئیے اور انہیں بتایا کہ سائنسدانوں نے ان کے جوابات ٹوئٹر کے ذریعے دئیے ہیں۔

Meet Aimun Faisal- The Teacher Who Got Answers From NASA For Her Students' Queries
Image Source: Twitter

اس حوالے سے نجی نیوز چینل کو انٹرویو میں بچوں کی ٹیچر ایمن فیصل نے بتایا کہ طلبہ کی سائنس میں بے حد دلچسپی اور اس کے متعلق نت نئے سوالات کے جوابات ان کے پاس بھی نہیں تھے تو انہوں نے بچوں سے کہا کہ ان سوالات کے جواب تو سائنسدان ہی دے سکتے ہیں ۔یوں بچوں نے سوالات لکھے اور پھر ٹیچر نے یہ تمام سوالات اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے پوسٹ کئے تاکہ ننھے طالبعلموں کو ان کے جواب مل جائیں۔

ٹیچر ایمن فیصل کی اس کوشش اور چوتھی کلاس کے طلبہ کاخلائی تحقیقات سے متعلق دلچسپ سوالات پوچھے جانے پر پوری دنیا میں پاکستانی ننھے طالب علموں اور ان کی ٹیچر کو خوب سراہا جارہا ہے۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *