ہراسانی کے خلاف آواز اٹھانے پر آئی بی اے نے طالبعلم کو برخاست کر دیا


0

انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) نے طالب علم محمد جبرائیل کو خاتون اسٹاف افسر کے ساتھ پیش آنے والے ہراسگی کے واقعے کو بےنقاب کرنے پر یونیورسٹی سے بےدخل کر دیا۔

آئی بی اے کے فیس بک پیج پر شیئر کیے گئے بیان کے مطابق محمد جبرائیل کو انسٹی ٹیوٹ کے قائم کردہ ’درست طریقے‘ استعمال کرنے کے بجائے واقعے کی رپورٹنگ کے لیے سوشل میڈیا کا انتخاب کرنے پر سزا سنائی گئی ہے۔

Image Source: File

یونیورسٹی کے جاری کردہ اس مراسلے میں کہا گیا کہ طالب علم کو اپنے عمل پر نظر ثانی کیلئے مواقع دیئے گئے جبکہ مشاورت کی گئی لیکن طالب علم نے سوشل میڈیا سے واقعہ کی پوسٹ نہیں ہٹائی جس پر ڈسپلنری کمیٹی نے آئی بی اے کے اصولوں کیخلاف ورزی کے لیے زیرو ٹالرنس پالیسی کو اپناتے ہوئے طالب علم کو نکالنے کا فیصلہ کیا۔

Image Source: Twitter

طالب علم محمد جبرائیل کے خلاف انضباطی کاروائی شروع کردی گئی ہے جب انہوں نے فیس بک پر ہراسانی کے واقعے کے بارے میں ایک پوسٹ شیئر کی، انہوں نے 25 اگست کو آئی بی اے کے فنانس ڈپارٹمنٹ میں خود وہ واقعہ دیکھا تھا، جس میں انہوں نے ڈپارٹمنٹ کے منیجر کو ایک خاتون ملازم پر چیختے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ ’میں تمہیں ساری رات یہاں بیھٹا کر رکھوں گا‘۔

بعدازاں آئی بی اے کے عہدیدار کے خلاف پوسٹ کو ہٹانے سے متعلق مطالبے سے طالب علم نے انکار کر دیا تھا۔ اپنے بیان میں آئی بی اے نے کہا کہ یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ آئی بی اے انتظامیہ نے (جبرائیل) کی جانب سے ادارے کے اندر مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعے کو اجاگر کرنے کی تعریف کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تاہم ہمیں اس بات پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ مبینہ طور پر ہراسانی کے واقعہ کو اجاگر کرنے والے طالب علم کا عمل نظم و ضبط کے خلاف تھا، ادارے کی انسداد ہراسانی کمیٹی آئی بی اے اور ایچ ای سی کے قواعد و ضوابط اور طریقہ کار کے مطابق کیس کی تحقیقات کر رہی ہے، ہم سننے کی بنیاد پر کسی نتیجے پر نہیں پہنچتے اور کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے ہمیشہ تحقیق کرتے ہیں۔

متاثرہ طالب علم جبرائیل کا تعلق لکی مروت سے ہے۔ انہوں نے میٹرک اور انٹر میں 90 فیصد سے زائد نمبر حاصل کیے اور اسکالرشپ پر آئی بی اے میں داخلہ لیا۔اس کے بعد وہ یونیورسٹی کے ایک استاد کے اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنے لگے جبکہ دو مہینے میں اپنی بیچلرز کی ڈگری مکمل کرنے والے تھے۔ تاہم یونیورسٹی کے اس فیصلے پر جبرائیل کا کہنا ہے کہ وہ معافی نہیں مانگیں گے۔

دوسری طرف، یونیورسٹی کے اس فیصلے پر سوشل میڈیا پر شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے اور آئی بی اے کی انتظامیہ شدید تنقید کا شکار ہے۔ معروف سماجی رہنما اور وکیل جبران ناصر نے ٹوئٹر پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ شرم کی بات ہے کہ ایک طالب علم کو ایک خاتون اسٹاف ممبر کو ہراساں کیے جانے کے واقعے کیخلاف بولنے پر بے دخل کر دیا گیا۔ سچ بولنے کی وجہ سے ایک طالب علم کا کیریئر برباد ہوگیا ہے، جبرائیل کا جرم یہ ہے کہ یونیورسٹی میں خاتون کے ہراسگی کے واقعے کے بارے میں سوشل میڈیا پر آواز بلند کی۔

انہوں نے لکھا کہ یہ سچ ہے کہ جبرائیل نے آئی بی اے کے متعلقہ حکام کو ای میل کے ذریعے واقعے کے بارے میں آگاہ کیا لیکن یونیورسٹی کو اپنی خاتون افسر کے ساتھ ہونے والے جرم سے کے بجائے اپنی ساکھ بچانے کی زیادہ فکر تھی۔

مزید پڑھیں: آئی بی اے کے طلباء کی جامعہ کراچی میں غیراخلاقی سرگرمیوں کا معاملہ

ان کے مطابق جبرائیل سے فوری طور پر انضباطی تحقیقات شروع کردی گئیں۔ آئی بی اے کیمپس میں گزشتہ چار ہفتے سے سینکڑوں طلبہ ہراسگی اور جبرائیل کے ساتھ انتظامیہ کے برتاؤ کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے اور یہ جبرائیل کا دوسرا جرم ہے کہ طلباء اسے اپنے موقف پر ڈٹے رہنے پر حوصلہ دیتے رہے۔

جبران ناصر نے کہا کہ آئی بی اے نے جبرائیل پر مبینہ طور پر ہراساں کرنے والے کی تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کا الزام عائد کیا، انہوں نے کہا کہ انسٹی ٹیوٹ ہراساں کرنے کے معاملے پر خاموش تھا، خاتون نے ایک ماہ قبل اپنی شکایت پیش کی تھی اور اسے باقاعدہ جواب نہیں ملا، جب وہ اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی کے پاس گئی تو اسے کہا گیا کہ جبرائیل کو تو ہم دیکھیں گے، تم دوسرا کوئی عینی شاہد لاؤ،جس کے بعد یونیورسٹی نے جبرائیل کو نکال دیا۔

جبران ناصر نے پوسٹ میں یہ بھی لکھاکہ آج آئی بی اے کے ڈین اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر اکبر ایس زیدی نے جبرائیل کی بےدخلی کے نوٹس پر دستخط کردئیے ہیں۔یہ وہی اکبر زیدی ہیں جو طلبہ یونینز اور ترقی پسند سیاست کی ضرورت کے بارے میں لیکچر دینے کے لیے جانے جاتے ہیں۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *