یونان کشتی حادثے میں 298 پاکستانی ہلاک، ریسکیو آپریشن بند


1

 لیبیا سے اٹلی جاتے ہوئے یونان میں حادثے کا شکار ہونے والی کشتی میں 310 پاکستانی سوار تھے جن میں سے صرف 12 افراد بچ سکے، یونانی حکومت نے ریسکیو آپریشن بند کر کے تمام لاپتہ افراد کو مردہ قرار دے دیا۔

یونانی کوسٹ گارڈز کے مطابق یہ واقعہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب پیرلوس کے جنوب مغرب میں پیش آیا۔  حادثہ کا شکار ہونے والے دیگر افراد کی تلاش جاری ہے۔

یونان کے حکام کا کہنا ہے کہ اس جہاز میں سینکڑوں افراد سوار تھے۔ جن افراد کو بچایا گیا ہے ان میں پاکستانی، مصری، شامی اور افغان شہری شامل ہیں۔ 

جہاز پچھلے کئی دن سے سمندر کے اندر خراب تھا، جہاز کو ٹیک کرنے کی بجائے چھوٹی کشتی سے کھینچا گیا جس سے وہ پلٹ گیا، جہاز میں سوار صرف 12 افراد کو زندہ بچایا جا سکا ۔ کشتی میں سوار کوٹلی آزاد کشمیر کے تقریباً 50 افراد کا اب تک کچھ پتا نہ چل سکا۔

Greece Kashti Hadsa

حادثے کا شکار ہونے والے پاکستانیوں میں 135 کا تعلق آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں سے ہے، کشتی میں سیالکوٹ کے 9 اور شیخوپورہ کے 4 نوجوان بھی شامل ہیں اور کشتی میں سوار ایک ہی خاندان کے 12 افراد سمیت 28 افراد کا تعلق کھوئی رٹہ کے نواحی گاؤں بنڈلی سے ہے۔ واقعے کے بعد بنڈلی گاؤں میں کہرام مچا ہوا ہے اور لواحقین اپنے پیاروں کے لیے پریشان ہیں

یونانی حکومت کی طرف سے ریسکیو آپریشن چار روز تک جاری رہا جس میں کسی بھی تارکین وطن کو آخری دو دونوں میں ریسکیو نہیں کیا جا سکا۔

یاد رہے کہ 14 جون کو یونان میں تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے سے 79 مسافر ہلاک ہو گئے تھے جبکہ 104 کو زندہ نکالا گیاتھا، مرنے والوں میں 35 کا تعلق شام، 30کا تعلق مصر اور 10 کا تعلق پاکستان اور دو کا فلسطین سے ہے۔

مقامی حکام کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کی کشتی میں سوار 500 سے زائد مسافروں میں 300 سے زائد تاحال لاپتا ہیں۔

لاشوں کی شناخت ڈی این اے کے ذریعے ہو گی: ترجمان دفتر خارجہ

سنیچر کو وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ایک بیان میں کہا کہ ’ہمارا مشن 78 برآمد شدہ لاشوں کی شناخت کے عمل میں یونانی حکام کے ساتھ بھی رابطے میں ہے۔ یہ شناختی عمل قریبی خاندان کے افراد (صرف والدین اور بچوں) کے ساتھ ڈی این اے میچنگ کے ذریعے ہوگا۔‘ 

Greece Kashti Hadsa

ذرائع کے مطابق جاں بحق ہونے والے 79 افراد کی لاشیں مل گئی ہیں جن کی شناخت نہیں ہو سکی، ڈی این اے کے بعد ہی جاں بحق ہونے والوں کی شناخت ممکن ہوگی، کشتی سانحہ میں مجموعی طور پر 104 افراد کو ریسکیو کیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یونان میں پاکستانی مشن سفیر عامر آفتاب کی سربراہی میں مقامی حکام کے ساتھ رابطے میں ہے تاکہ ہلاک ہونے اور زندہ بچ جانے والے پاکستانی شہریوں کی شناخت ، بازیابی اور امداد فراہم کی جا سکے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے جاں بحق افراد کے اہلخانہ سے تعزیت اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 12 پاکستانیوں کو یونان کے کوسٹ گارڈز نے بچایا، پاکستانی سفارتی عملہ یونانی حکام کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے۔

بیان میں مزید کہا کہ ’بدقسمت کشتی پر سوار ممکنہ مسافروں کے اہل خانہ سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ تصدیق کے مقاصد کے لیے یونان میں پاکستان مشن سے 24/7 ہیلپ لائن نمبرز پر رابطہ کریں۔

 

نوجوان روزگار کیلئے غیر قانونی طور پر اٹلی اور برطانیہ جا رہے تھے: کمشنر میرپور

ادھر کمشنر میرپور آزاد کشمیر چوہدری شوکت علی کا کہنا ہے کہ حادثے کا شکار نوجوان 3 سے 4 ماہ پہلے بیرون ملک گئے تھے، نوجوانوں کو غیر قانونی طریقے سے باہر بھیجنے والے ایجنٹس کا تعلق گجرات، منڈی بہاؤالدین اور گوجرانوالہ سے ہے۔

چوہدری شوکت علی کا کہنا ہے کہ تمام نوجوان روزگار کے سلسلے میں مبینہ طور پر غیر قانونی طور پر اٹلی، یونان اور برطانیہ جا رہے تھے۔

کشتی ڈوبنے کے افسوسناک واقعے پر ڈسٹرکٹ بار کوٹلی نے 3 روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے جبکہ 3 روزہ رسٹ فیسٹیول بھی منسوخ کر دیا گیا ہے۔

غیرقانونی طریقے سے یورپ بھیجنے والا ایجنٹ گرفتار

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے پاکستانی نوجوانوں کو غیرقانونی طریقے سے یورپ بھیجنے والا ایجنٹ کراچی ائیرپورٹ سے گرفتار کرلیا گیا۔

دوسری جانب 12 پاکستانی شہریوں نے ایف ائی اے کو اپنے ایجنٹوں کے نام بھجوا دیے ہیں جس پر ایف ائی اے نے ایجنٹوں کی گرفتاری کیلئے کوششیں شروع کر دی ہیں۔

ایف آئی اے کے مطابق ملزم ساجد محمود آذربائیجان فرار ہونے کی کوشش کر رہا تھا، ملزم نے متعدد افراد کو لیبیا بھیجا، جس پر تفتیش جاری ہے۔

آپ کو بتاتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تارکین کے مطابق یہ تارکین وطن کی کسی کشتی کو پیش آنے والا دوسرا سب سے بڑا حادثہ ہو سکتا ہے۔ 

اپریل 2015 میں لیبیا سے اٹلی جانے والے تارکین وطن کی ایک کشتی کو حادثہ پیش آیا تھا جس میں لگ بھگ 1100 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ 


Like it? Share with your friends!

1
Annie Shirazi

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *