
ونسٹن چرچل کا مشہور مقولہ ہے کہ ’’ کامیابی حتمی منزل نہیں ہے اور نہ ہی ناکامی حتمی مایوسی، دراصل حوصلہ قائم رہے یہی سب سے بڑی کامیابی ہے‘‘۔ خوشی و غم اور کامیابی و ناکامی کی آنکھ مچولی زندگی بھر انسان کے ساتھ چلتی رہتی ہے، اچھے برے دن ہماری زندگی کا لازمہ ہیں، ہمیں ان کے ساتھ سمجھوتہ کرنا ہی پڑتا ہے۔ قدرت نے انسان میں یہ صلاحیت رکھی ہے کہ وہ عزم و حوصلے کے بل بوتے پرہر معرکہ سر کرسکتا ہے اور خود کو مشکلات کے بھنور سے نکال سکتا ہے۔
فیاض اختر فیضی کی زندگی ان تمام لوگوں کے لئے مثال ہے جو محنت سے جی چراتے ہیں اور اپنے حالات کا رونا روکر دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں کیونکہ وہ اس عمر میں مشہور فوڈ ڈلیوری سروس فوڈ پانڈا میں بطور رائڈر کام کر رہے ہیں ،ان کی زندگی ان کے عزم وحوصلے کی عکاسی کرتی ہے کیونکہ وہ اس عمر میں بھی کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتے اس لئے فوڈ ڈلیوری رائڈر بن کر اپنے ذمہ داریوں کا بوجھ خود اٹھا رہے ہیں۔

فیاض اختر فیضی کے مطابق وہ گریجویٹ ہیں اور انہوں نے اپنی گریجویشن 1974 میں کی۔ اس کے بعد انہوں نے وزارت خزانہ میں بطور اسسٹنٹ اسکیل 15 میں کام کیا۔ وہ انتظامی امور کا تجربہ رکھنے اور انگریزی بول چال میں مہارت رکھتے ہیں۔ انہوں نے 2003 میں ملازمت سے ریٹائرمنٹ لے لی تھی اور اب انہیں صرف 25 ہزار روپے پنشن مل رہی ہے جو ان کے گھر کے کرائے میں چلی جاتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے مشکل مالی حالات کے حل کے لئے فوڈ پانڈا میں بطور ڈیلیوری بوائےملازمت اختیار کی تاکہ وہ کسی پر بوجھ نہ بنیں۔

عمر بھر ملازمت کرنے کے باوجود اس عمر میں جبکہ انہیں گھر پر آرام کرنا چاہیئے وہ تپتی دھوپ میں موٹر سائیکل پر پہلے لوگوں کے آرڈر ہوٹل سے پک کرتے ہیں اور پھر کسٹمر تک پہنچاتے ہیں۔ وہ گھروں میں کھانے پہنچانے کی یہ محنت طلب ملازمت اس لئے کر رہے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ مانگ کر کھانے سے کام کرنا بہتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ کام کے دوران کبھی کسی نے ان کی حوصلہ شکنی نہیں کی بلکہ لوگوں نے انہیں ہمیشہ سراہا ہے ،انہیں بھی لوگوں کے مثبت روئیے سے توانائی ملتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی مالی مشکلات کو دور کرنے کے لئے کوئی اور ملازمت بھی کرسکتے ہیں ، وہ کمپیوٹر نہیں جانتے لیکن انگریزی بول سکتے ہیں تو اگر کوئی انہیں جاب دے تو وہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔

تہتر سالہ فیاض اختر فیضی ان کا ماننا ہے کہ عمر کوئی بھی ہو کام لازمی کرتے رہنا چاہئیے تاکہ عزت رہے۔ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کے بجائے خود محنت کرنی چاہیئے۔ بلاشبہ محنت میں عظمت ہے اور اگر انسان میں ہمت اور کچھ کر دکھانے کا جنون ہو تو کوئی بھی کام مشکل یا ناممکن نہیں ہوتا۔
گزشتہ دنوں لاہور کی ایک پیزا شاپ کے فوڈ رائڈر ایرک پرویز کی کہانی سوشل میڈیا پر خوب وائر ل ہوئی تھی جو کہ ایک بازو سے محروم ہونے کے باوجود اپنی نوکری میں کوئی کوتاہی نہیں برتتے اور لوگ بھی محنت کرنے پر ان کی بہت حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اگر آرڈر زیادہ ہوتے ہیں تو پیزا شاپ میں ان کے ساتھی ان کے بیگ میں آرڈر رکھ دیتے ہیں ، کسٹمرز بھی ان کا خیال کرتے ہیں اگر آرڈر زیادہ ہوتوکسٹمرز خود ان کے بیگ سے آرڈر نکال لیتے ہیں۔ حتیٰ کہ ٹریفک پولیس اہلکار بھی ان کا چالان نہیں کرتے بلکہ انہیں شاباشی دیتی ہیں۔
مزید پڑھیں: معذوری کو اپنی کمزوری نہ بننے دینے والا باہمت عدنان
اسی طرح کراچی کے نوجوان فہد نے بھی اپنی معذوری کو اپنی مجبوری نہیں بنایا، فہد موٹر سائیکل پر فوڈ پانڈا سروس کے ذریعے لوگوں کو گھروں پر کھانا فراہم کرتے ہیں۔ بچپن میں ایکسیڈنٹ میں ایک بازو ضائع ہونے کے باوجود اس نوجوان نے محنت کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔ چاہے جتنی بھی زیادہ ٹریفک ہووہ موٹر سائیکل چلالیتے ہیں اور وقت پر کھانا ڈیلیور کر دیتے ہیں۔
Story Courtesy: Urdu News
0 Comments