ایمرجنسی میڈیسن میں اعلیٰ ترین غیر ملکی ڈگری رکھنے والی پاکستانی ڈاکٹر


0

ایمرجنسی میڈیسن طب کے شعبے کا ایک اہم حصہ ہے، اس سے مراد دوران حادثات اور مختلف بیماریوں جیسے کہ بچوں میں انفیکشن، ذیابیطس ، بلڈ پریشر ، ہنگامی حالت میں جان بچانے کے لئے فوری طبی امداد ،دل کا دورہ ، دمے کا حملہ اور سانس کے مسائل، ناک کان گلے میں بیماری کی وجہ سے ہنگامی صورتحال، زہریلے مواد کا جسم میں چلے جانا اورموسمی تبدیلی کی وجہ سے حادثات کی صورت میں مریض کا فوری اور مکمل معائنہ کرنا ہے۔

اس شعبے کی اہمیت کو مدؔنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی سنیعہ خان غوری نے ایمرجنسی شعبے میں برطانیہ سے اعلیٰ ترین فیلو شپ آف رائل کالج آف ایمرجنسی میڈیسن سے ڈگری حاصل کی ہے اور یہ پاکستان کی پہلی ایسی ڈاکٹر ہیں جنہوں نے ملک میں رہتے ہوئے یہ ڈگری لی۔ درحقیقت میڈیکل کے شعبے میں ایمرجنسی میڈیسن ایک نئی فیلڈ ہے جس میں ڈاکٹرز ایمرجنسی کو ڈیل کرنے میں مہارت حاصل کرتے ہیں اور دنیا بھر میں ایمرجنسی میڈیسن کے لحاظ سے اسے اعلیٰ ترین ڈگری تصور کیا جاتا ہے۔

Image Source: Screengrab

خبر رساں ادارے انڈیپنڈنٹ اردو کے مطابق ڈاکٹر سنیعہ خان یہ کامیابی حاصل کرنے کے بعد کم عمری میں یہ ڈگری مکمل کرنے کی فہرست میں شامل ہوگئی ہیں۔ ڈاکٹر سنیعہ خان کے مطابق ایمرجنسی کا کام ایمبولینس سے شروع ہو جاتا ہے اور اگر ایمبولینس میں ہی مریض کو بروقت طبی امداد دے دی جائے تو اس سے اموات کو کم کرنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ اپنے اس انٹرویو میں ڈاکٹر سنیعہ خان نے ایمرجنسی کے شعبے کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ایمرجنسی میڈیسن ایک نئی فیلڈ ہے جس میں ڈاکٹرز ایمرجنسی کو ڈیل کرنے میں مہارت حاصل کرتے ہیں اور دنیا بھر میں ایمرجنسی میڈیسن کے لحاظ سے اسے اعلیٰ ترین ڈگری تصور کیا جاتا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ایمرجنسی میڈیسن کے شعبے کی ابتداء 1950 کے بعد ہوئی اور پہلا امریکن کالج آف میڈیسن 1968 میں قائم ہوا۔ تاہم پاکستان میں کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان نے 2010 میں اس اہم شعبے میں اسپشلائزیشن کی منظوری دی۔اس وقت ملک میں صرف دو بڑے اسپتالوں میں ایمرجنسی میڈیسن میں اسپشلائزیشن کرائی جارہی ہے جب کہ ملک کی موجودہ صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایمرجنسی میڈیسن میں باقاعدہ تربیت کے مواقعے پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

Image Source: Screengrab

انٹرویو میں ڈاکٹر سنیعہ خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں 70 اموات انجریز یا ٹراما کی وجہ سے ہوتی ہیں اگر کسی جگہ پر ایکسیڈنٹ ہوا ہے تو جو مریض ہے اسے آپ اسپتال کس طریقے سے پہنچائیں گے اور اسپتال پہنچاتے وقت راستے میں اس کا کیا علاج کریں گے یہ چیز ابھی پاکستان کے طبی شعبے میں نہیں ہے، کچھ ایمبولینس سروسز ہیں جوکہ یہ کام بخوبی کررہی ہیں لیکن ان میں بھی ماہر پیرامیڈیکس اور فزیشنز کی بہت قلت ہے۔ ڈاکٹر سنیعہ خان فیلو شپ کے بعد پاکستان میں ایمرجنسی کے شعبےکو فروغ دینے کی خواہش مند ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ وہ دیگر ڈاکٹرز کو بھی اس شعبے میں تربیت دیں۔

موجودہ حالات میں حکومت کو چاہیئے کہ وہ ملک میں ایمرجنسی میڈیسن کے شعبے کی پذیرائی کرے جو کہ اس وقت عدم توجہی کا شکار ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں رائج نظام کے مطابق پاکستان کے اسپتالوں میں ایمرجنسی کے شعبوں کو ترقی دی جائے اور ایمرجنسی میڈیسن میں اسپیشلائزیشن کے لئے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کئے جائیں۔

Image Source: Screengrab

خیال رہے کہ ایمرجنسی میڈیسن کے علاوہ ٹیلی ہیلتھ بھی طب کا ایک ایسا اہم شعبہ ہے جس پرترقی یافتہ ممالک کافی کام کررہے ہیں لیکن پاکستان میں اس بارے میں ابھی بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو ٹیلی میڈیسن کا تصور عالمی وباء سے پہلے موجود تھا بلکہ گھر بیٹھے علاج معالجے کی سہولت حاصل کرنے کے لیے لوگوں میں یہ رجحان عام ہے۔

دراصل ٹیلی ہیلتھ کے اس سسٹم کے ذریعے ایک ہی وقت میں ایک سے زائد ڈاکٹر بھی مریض کے معائنے اور علاج معالجے میں حصہ لے سکتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ مریض کے اہل خانہ بھی اس سسٹم سے کنیکٹ ہوکر مریض کی طبعیت جان سکتے ہیں۔ اس جدید نظام کے فوائد کو دیکھتے ہوئے پاکستانی اسپتالوں میں بھی اب اس نظام کو متعارف کروانے کی تگ و دو کی جارہی تاکہ ٹیکنالوجی کی مدد سے دوردارز علاقوں میں بسنے والے غریب مریضوں کو علاج کے لیے شہروں کا رخ نہیں کرنا پڑے۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *