ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی ایک بار پھر بلاول بھٹو پر نازیبا تنقید


0

یوں تو ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی وجہ شہرت کئی حوالوں سے ہے لیکن انہی چند وجوہات میں ایک بڑی وجہ تنازعات کی بھی ہے، ان کے حوالے سے یہ بات ہمیشہ سے مشہور رہی ہے کہ ان کا اور تنازعات کا آپس میں گویا کوئی چولی دامن کا ساتھ ہو۔ ایسا ہی کچھ اس بار بھی ہوا، جب 48 سالہ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کے حوالے سے نازیبا الفاظ ادا کرتے ہوئے ان کا مذاق اڑانے کی کوشش کی گئی۔

سیاست میں مسائل کو لیکر بحث اور تنقید کو ہمیشہ مثبت انداز میں دیکھا جاتا ہے، اسے جمہوریت کا حسن قرار دیا جاتا پے، لیکن افسوس کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عامر لیاقت حسین سربراہ پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کو کافی عرصے سے ذاتی نوعیت پر جاکر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور ایسا ہی اس بار بھی ہوا کہ بغیر کسی وجہ کے ڈاکٹر عامر لیاقت نے بلاول بھٹو پر نوعیت کے حملے کئے۔

اس قبل موجودہ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کی جانب سے بھی بلاول بھٹو پر نازیبا تنقید کی گئی تھی، جس میں انہوں کہا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی محض ایک ہی صورت میں حکومت گراسکتی ہے، جب بلاول اپنے کپڑے پھاڑ لیں اور شیخ رشید پر ہراسانی کا الزام عائد کردیں۔

Image Source: Facebook

یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین اور بلاول بھٹو زرداری دو الگ نظریات کی شخصیات ہیں، دونوں کی سیاسی وابستگی الگ ہے، ہمیشہ مخالفت کی سیاست کی تاریخ ہے لیکن اس طرح کے ذاتی نوعیت کے حملے اور نازیبا جملے بازی یقیناً ایک قومی اسمبلی کے رکن کے منہ سے اچھے نہیں لگتے ہیں، یہ اس منصب کے تقدس کے منافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹوئیٹر صارفین کی جانب سے ڈاکٹر عامر لیاقت کو کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے۔

اگرچے بلاول بھٹو زرداری کی شخصیت، ان کی خراب اردو ہونے کا مذاق ہم آئے دن پاکستان پیپلز پارٹی کے مخالفین کی جانب سے سنتے آئے ہیں، لیکن یہاں ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کا تذکرہ اور بات کرنے کی خاص وجہ صرف یہی کہ ناصرف تواتر سے وہ اس طرح کی تنقید کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ نازیبا کلمات بھی ادا کرتے ہیں جو کسی بھی محضب معاشرے میں قابل قبول نہیں ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صارفین چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی جانب سے ایسی ذاتی نوعیت کی تنقید بند ہو۔

واضح رہے یہ معاملہ محض کسی ایک شخصیت کا نہیں ہے بلکہ افسوس کے ساتھ یہ ہماری خراب سیاسی روایات کا حصہ ہے، جس میں اس قسم کی تنقید کو مذاق سمجھ کر چھوڑ دیا جاتا ہے، جیسے ماضی میں رہنما پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی شیریں مزاری کو اسمبلی میں “ٹریکٹر ٹرالی” کے نام سے پکارا گیا، اگرچہ اس بات کی فوری مذمت کے بجائے ایوان میں قہقہے بکھیرے گئے۔ جس سے اندازہ ہوا ہم سیاسی اعتبار سے کس قدر نابالغ ہیں۔

aamir-liaquat-biography-parhlo.com
Image Source: Twitter

لہذا ہم سب کو اس پر ایک بار سوچنا ہوگا، ہم بحیثیت قوم کیا اخلاقی اعتبار سے درست سمت جا رہے ہیں؟ ہمارے منتخب کردہ نمائندگان کی اپنی اخلاقی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں؟ کیا کہیں ہم اپنی اخلاقی تعریف ہی تو تبدیل نہیں کرچکے ہیں۔ ذرا سوچئے


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *