دنیا کے چھٹے بڑے شہر کا تاریخی پس منظر کیا ہے؟


0

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی، تجارتی، تعلیمی، مواصلاتی و اقتصادی مرکز ہے۔ جبکہ اگر آبادی کے تناسب سے بات کی جائے تو کراچی دنیا کا چهٹا بڑا شہر ہے اور پاکستان کے صوبہ سندھ کا دارلخلافہ بھی ہے۔

یہ شہر دریائے سندھ کے مغرب میں بحیرہ عرب کے شمالی ساحل پر واقع ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ اور ہوائی اڈے بھی کراچی میں قائم ہیں۔

Image Source: Sindhishaan.com

کراچی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو 1947 سے 1960 تک پاکستان کا دار الحکومت بھی رہا ہے۔ موجودہ کراچی کی جگہ پر واقع قدیم ماہی گیروں کی بستی کا نام مائی کولاچی تھا جو بعد میں بگڑ یا وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوکر کراچی بن گیا۔

سال 1772 کو مائی کولاچی کو مسقط اور بحرین کے ساتھ تجارت کرنے کے لیے بندرگاہ منتخب کیا گیا۔ اس کی وجہ سے یہ گاؤں تجارتی مرکز میں تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔ اس وقت مائی کولاچی میں بلوچوں کے علاوہ ہمسایہ علاقوں کی کمیونٹی بھی بڑی تعداد میں بس گئی، بڑھتے ہوئے اس شہر کی حفاظت کے پیش نظر اس کےگرد فصیل بنائی گئی اور مسقط سے توپیں درآمد کرکے شہر کی فصیل پر نصب کی گئیں۔ فصیل میں 2 در تھے (بلوچی میں در گیٹ کو کہتے ہیں) ایک در (گیٹ) کا رخ سمندر کی طرف تھا اور اس لیے اس کو بلوچی میں کھارادر ( سندھ میں کھارودر) کہا جاتا اور دوسرے در (گیٹ) کا رخ لیاری ندی کی طرف تھا اور اس لیے اس کو بلوچی میں میٹھادر (سندھی میں مٹھودر) کہا جاتا تھا۔

Image Source: Mangobaaz.com

شہر میں بین الاقوامی بندرگاہ ہونے کی وجہ سے صنعتی سرگرمیاں دیگر شہروں سے قبل شروع ہو گئیں۔
پھر انگریزوں نے 1839 میں کراچی شہر پر حملہ کیا اور اس پر قبضہ کر لیا۔ تین سال کے بعد شہر کو برطانوی ہندوستان کے ساتھ ملحق کرکے ایک ضلع کی حیثیت دے دی۔ انگریزوں نے کراچی کی قدرتی بندرگاہ کو دریائے سندھ کی وادی کا اہم تجارتی مرکز بنانے کے لیے شہر کی ترقی پر اہم نظر رکھی۔ برطانوی راج کے دوران کراچی کی آبادی اور بندرگاہ دونوں بہت تیزی سے بڑھے۔

سال 1857 کی جنگ آذادی کے دوران میں کراچی میں 21 ویں نیٹِو انفنٹری نے 10 ستمبر کو مغل فرمانروا بہادر شاہ ظفر سے بیعت کر لی لیکن انگریزوں نے شہر پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور بغاوت کا سر کچل دیا۔

جبکہ سال 1876 کی دہائی کی بات کی جائے تو کراچی ایک ترقی یافتہ شہر کی صورت اختیار کر چکا تھا جس کا انحصار شہر کے ریلوے اسٹیشن اور بندرگاہ پر تھا۔ اس دور کی اکثر عمارتوں کا فن تعمیر کلاسیکی برطانوی نوآبادیاتی تھا، جو بر صغیر کے اکثر شہروں سے مختلف ہے۔ ان میں سے اکثر عمارتیں اب بھی موجود ہیں اور سیاحت کا مرکز بنتی ہیں۔ نیز اس دور میں کراچی ادبی، تعلیمی اور تہذیبی سرگرمیوں کا مرکز بھی بن رہا تھا۔

ساتھ ہی ساتھ سال 1936 میں جب سندھ کو صوبہ کی حیثیت دی گئی تو کراچی کو اس کا دار الحکومت منتخب کیا گیا۔ اس وقت شہر کی آبادی صرف چار لاکھ تھی۔اپنی نئی حیثیت کی وجہ سے شہر کی آبادی میں کافی تیزی سے اضافہ ہوا اور شہر خطے کا ایک مرکز بن گیا۔

اگرچے سال 1959 میں پاکستان کے دارالحکومت کی اسلام آباد منتقلی کے باوجود کراچی کی آبادی اور معیشت میں ترقی کی رفتار کم نہیں ہوئی اور اب بھی یہ شہر پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی و تجارتی مرکز ہے۔

کراچی 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں لسانی فسادات، تشدد اور دہشت گردی کا شکار رہا، ان بگڑتے ہوئے حالات کو سنبھالنے کے ليے پاک فوج کو شہر قائد میں مداخلت کرنی پڑی۔

کراچی کی مثال اس دیے کی مانند ہے جو دیا خود جل کر دوسروں کو روشنی بخشتا ہے۔ موجودہ دور میں روشنیوں کے شہر کراچی کی امن عامہ کی صورت حال بھی ماضی کے مقابلے کافی بہتر ہوئی ہے اور جس کے باعث مختلف شعبے معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔


Like it? Share with your friends!

0