ریٹنگ نے میڈیا کی آزادی کی بربادی کردی ہے، انور مقصود


0

انور مقصود کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ انہوں نے اپنے فنی کریئر کا آغاز ڈرامہ نگاری یا شاعری سے نہیں بلکہ اداکاری سے کیا تھا۔ لیکن پھر چند ہی برسوں بعد وہ اداکاری کم کرکے ڈرامہ نگاری، میزبانی اور گیت نگاری کی طرف آئے اور تقریباً چھ دہائیوں سے وہ اپنی تحریروں اور مزاح سے لوگوں کو محظوظ کر رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ (اردو) کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے لیجنڈری ڈراما ساز، مزاح نگار اور مصنف انور مقصود نے بتایا کہ وہ نئے ڈراموں کی صورتِ حال اور موضوعات سے مطمئن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک ہی گیٹ اَپ کے ساتھ ایک اداکار کئی ڈرامے کر جاتا ہے، ان کے بقول آج کل بننے والے بہت سے ڈرامے تو ایسے ہیں جووہ خود بھی نہیں دیکھتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ریٹنگ نے میڈیا کی آزادی کی بربادی کردی ہے، آج کل ڈرامے میں جتنی بیہودگی ہوگی، اس کی اتنی ہی زیادہ ریٹنگ آتی ہے۔

Image Source: The News

معروف ڈرامہ نگار کا کہنا تھا کہ کتابیں نہ پڑھنے کی ہی وجہ سے آج کل کے لوگوں میں لکھنے کا ہنر کم ہو رہا ہے اور شاید اسی وجہ سے ٹی وی پر مزاح کے نام پر جو ہو رہا ہے وہ ان کے خیال میں درست نہیں۔ انور مقصود نے کہا کہ دنیا کا سب سے آسان کام کسی اور پر تنقید کرنا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ خود اس شعبے میں اتنا اچھا کام کر چکے ہوں کہ دوسرے پر تنقید کرنے کے قابل ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پہلے مزاح کی حد اس وقت ختم ہو جاتی تھی جب لکھنے والے کا قلم کسی کے بارے میں لکھتے لکھتے رُک جاتا تھا لیکن اب مزاح شروع ہی وہاں سے ہوتا ہے جہاں پہلے لکھنے والا رک جاتا تھا۔

انٹرویو میں انور مقصود نے انکشاف کیا کہ ٹی وی کے ساتھ ان کی ناراضگی کا سلسلہ ہمیشہ سے ہی چل رہا ہے اور اسی وجہ سے انہوں نے ‘ففٹی ففٹی’ کے بعد آنگن ٹیڑھا’ کو بھی ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ انور مقصود کے بقول ‘آنگن ٹیڑھا’ میں ان کے کئی جملوں پر ٹی وی سے تعلق رکھنے والوں کو اعتراض تھا لیکن پھر بھی وہ اس سیریز کو آگے بڑھانے کے خواہش مند تھے۔ ان کے بقول اگر اچھی چیز اپنے وقت پر ختم ہو جائے تو لوگوں کو یاد رہتی ہے اور اگر وہ بدستور چلتی جائے تو تباہی ہوتی ہے جس کی سب سے بڑی مثال مارشل لاء کی ہے جو ایک وقت کے لیے ہوتا ہے کہ الیکشن کرائیں اور چلے جائیں۔

Image Source: Express Tribune

معروف رائٹر ہونے کے باوجود انور مقصود نے کبھی بھی خود کوئی کتاب نہیں لکھی۔ اس سوال پر انہوں نے کہا کہ ان کے کمرے میں ہر وقت چار کتابیں موجود ہوتی ہیں جن میں قرآن، دیوانِ غالب، کلیاتِ میر تقی میر اور کلیاتِ اقبال شامل ہیں۔ ان کے بقول ان چاروں کتابوں کے ہوتے ہوئے ان کی کتاب لکھنے ہمت ہی نہیں ہوئی۔البتہ انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے چند اسکرین پلیز اکٹھا کر رہے ہیں تا کہ اسے کتاب کی شکل میں لاسکیں۔

دوران انٹرویو انور مقصود نے معین اختر کے ساتھ اپنے کامیاب پروگرامز کا تذکرہ کیا اور کہا کہ معین کے بارے میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ ہندوستان و پاکستان میں اس معیار کا پرفارمر نہیں آیا۔

Image Source: Youtube

سوشل میڈیا پر آج کل انور مقصود اپنی ٹوئٹس کی وجہ سے کافی زیرِ بحث رہتے ہیں۔ لیکن معروف پلے رائٹر کا کہنا ہے کہ ٹوئٹر پر ان سے منسوب 11 اکاؤنٹس میں سے ایک بھی ان کا نہیں ہے سب فیک ہیں۔ انٹرویو میں تھیٹر سے متعلق بات کرتے ہوئے انور مقصود نے بتایا کہ اسٹیج کے لیے لکھنے کی ہمت چاہیے تھی جو انہیں تھیٹر کمپنی ‘کاپی کیٹس’ کے لڑکوں نے دی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ تھیٹر کے لیے ‘ہاف پلیٹ’، ‘آنگن ٹیڑھا’، ‘سیاچن’ جیسے کامیاب ڈرامے لکھ چکے ہیں اور اب ان کا ایک اور ڈرامہ جلد ہی پیش کیا جائے گا۔

علاوہ ازیں ، انور مقصود نے بتایا کہ ان کی ایک فلم کی اسکرپٹ بھی تقریباً مکمل ہے جس میں معروف اداکار فواد خان اداکاری کے جوہر دکھائیں گے۔ تاہم اپنی پہلی اور اب تک کی آخری فلم ‘دیوانے تیرے پیار کے’ کے متعلق انہوں نے بتایا کہ اس فلم میں صرف ان کا نام استعمال ہوا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جو ‘دیوانے تیرے پیار کے’ انہوں نے لکھی تھی وہ کافی ادبی تھی ،اس میں ان کا صرف ایک جملہ ‘خدا حافظ’ رکھا گیا تھا۔ باقی سب انور مقصود کے بقول سید نور نے دوبارہ لکھا تھا۔

Story Courtesy: VOA Urdu


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *