
“تربوز کا شربت بیچنے سے پہلے چھ ماہ تک بے روزگار رہا۔ لیکن جب میں نے یہ کام شروع کیا تو لوگوں نے اسے پسند کیا۔ مجھے لگتا ہے کہ میرا کیریئر اور مستقبل تباہ ہو چکا ہے۔”
ان خیالات کا اظہار کسی ان پڑھ نوجوان نے نہیں کیا بلکہ چین سے ایئرو ناٹیکل انجینئرنگ کی ڈگری لے کر واپس آنے والا پاکستانی عبدالمالک نے کیا ہے جو اعلیٰ ڈگری ہونے کے باوجود کراچی کے علاقے ملیر میں تربوز کا جوس “محبت کا شربت “ کے نام سے بیچنے پر مجبور ہیں۔

آج ہمارے معاشرے کا ہر نوجوان ملازمت کے حصول کے لیے کوشاں نظر آتا ہے اور کئی مہینوں کی جدوجہد کے باوجود ان کی تلاش محض تلاش ہی رہ جاتی ہے۔ سوات سے تعلق رکھنے والے عبدالملک جو چین سے ایئرو ناٹیکل انجینئرنگ کی ڈگری لے کر اچھی نوکری کے لئے وطن واپس آئے مگر معاشرے کی ستم ظریفی دیکھیں کہ سفارش نہ ہونےکے باعث آج بھی مناسب نوکری کی تلاش میں ہیں۔
ملیر کے علاقے ماڈل کالونی میں تربوز کا جوس بیچنے والے عبدالملک کی اسٹوری سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہورہی ہے۔ ان کے مطابق ان کی اسکولنگ عرب امارات میں ہوئی جبکہ ایئروناٹیکل انجینئرنگ کی ڈگری انہوں نے چین کی یونیورسٹی سے حاصل کی اور وہ اچھے مستقبل کا خواب لے کر پاکستان آگئے۔ انہوں نے ایئرو ناٹیکل کمپلیکس کامرہ میں انٹرن شپ کی اور پشاور فلائنگ کلب میں ٹرینی انجینئر اور ایک نجی ایئرلائن میں اسسٹنٹ ریمپ آفیسر کی ملازمتوں میں چند سال بھی لگائے مگر نہ اہلیت کے مطابق عہدہ ملا اور نہ ہی تنخواہ ۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستانی معاشرہ طبقات میں تقسیم ہے، جس میں امیر مضبوط اور غریب کا استحصال ہو رہا ہے جبکہ عام آدمی کے پاس آگے آنے کے مواقع بھی نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غریب یا متوسط طبقے کا نوجوان جب عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے تواس کے خواب بکھر جاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ عبدالمالک اور ان جیسے ناجانے کتنے نوجوان اپنے کیرئیر بنانے کے بجائے پیسے کمانے کے لئے متبادل راستے اختیار کر رہے ہیں کیونکہ یہ نوجوان تعلیم یافتہ تو ہیں لیکن عملی زندگی میں انہیں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ان کے لیے روزگار اور آگے بڑھنے کے مواقع نہیں ۔

ملک کی معاشی صورت حال کے پیش نظر تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل بیشتر نوجوانوں کے پاس باعزت روزگار ہی نہیں ہے، جبکہ بیشتر کے پاس ڈگری تو ہے ،لیکن وہ ان اسکلز سے محروم ہیں جو ملازمت کے لیے ضروری ہیں۔ اسی لئے جب عبدالملک کے لئے بھی بیس پچیس ہزار میں گھر چلانا ممکن نہ رہا تو وہ روزگار کی تلاش میں کراچی آگئے اور یہاں ٹھیلا لگا کر تربوز کا جوس بیچنے لگے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اعلیٰ ڈگری ہونے کے ساتھ ساتھ یہ نوجوان پشتو، اردو، انگریزی، عربی اور چائنیز زبانیں بھی جانتا ہے۔
مزید پڑھیں: اکنامکس میں بیچلرز نوجوان نے نوکری نہ ملنے پر فرینچ فرائز کا اسٹال لگا لیا
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں نوجوان مردوں اورخواتین کی شرح برابر ہے جبکہ ستر فیصد نوجوان پڑھے لکھے ہیں جب کہ پاکستان کی آبادی کا 64 فیصد 30 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے اور اس میں اکثریت کی عمر 15 سے 29 سال کے درمیان ہے جو کہ ملک کی مجموعی لیبر فورس کا 41.6 فیصد ہے۔
اس کے علاوہ ہر سال چالیس لاکھ نوجوان جاب مارکیٹ میں داخل ہو رہے ہیں۔ چنانچہ اس حساب سے پاکستان کو ہر سال دس لاکھ افراد کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کرنے ہونگے۔ ہمارے ملک کے نوجوان صحیح معنوں میں ستاروں پر کمند ڈال رہے ہیں، اُن کے عزائم بلند ہیں، وہ شبانہ روز محنت کے ذریعے ناممکن کو ممکن بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان نوجوانوں میں جوش، جذبہ اور انرجی بہت زیادہ ہے، اور یہ کچھ بھی کر دکھانے کی لگن رکھتے ہیں اور نئے نئے تجربات کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: شوبز انڈسٹری سے منسلک مشہور نام آج انڈہ پراٹھہ بیچنے پر مجبور
نوجوانوں کو تو مستقبل کا معمار گردانا جاتا ہے لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ اس بڑھتی ہوئی نوجوان نسل کو منفی سرگرمیوں سے بچانے کے لیے عملی طور پر ٹھوس اور ہنگامی اقدامات کرے، جن کے اثرات دیر پا ہوں اور اس سے ملکی تعمیر و ترقی میں فائدہ اٹھایا جاسکے۔
Story Courtesy : Junaid Akram
0 Comments