فرانس میں مسلمانوں کے خلاف کارروائی، 76 مساجد بند ہونے کا خدشہ


1

یورپی ملک فرانس ایک بڑی خبر سامنے آئی ہے، جس میں بتایا جارہا ہے کہ آنے والے کچھ دنوں میں حکومت کی جانب سے 76 مسلمانوں کی عبادت گاہوں کا ازسرِ نو معائنہ کیا جائے گا۔ فرانس کے وزیر داخلہ نے بدھ کے اسے ملک میں علحیدگی پسندوں کے خلاف پڑے پیمانے کے آپریشن کا اہم حصہ قرار دیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق فرانس کے وزیر داخلہ جیرالڈ ڈرمانن کے مطابق اس کاروائی کے دوران ملک کی 76 مسلمانوں کی مساجد کی نگرانی اور اسے کنٹرول کیا جائے گا۔ جن میں 16 کے مساجد فرانس کے درالحکومت پیرس میں واقع ہیں جبکہ باقی 60 فرانس کے دیگر شہروں میں واقع ہیں۔ اس دوران بتایا جارہا ہے کہ ان 76 مساجد میں سے کئی کو بند کردیا جائے گا البتہ 18 ایسی مساجد ہیں جنہیں جیرالڈ ڈرمانن کی درخواست پر فوری طور پر بند کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔

اس دوران انہوں نے مزید بتایا کہ اس سلسلے میں میں انتظامیہ نے کاروائی کرتے ہوئے 66 نامکمل دستاویزات والے تارکین وطن کو دہشت گردی کے شبے میں انہیں دوبارہ اپنے ملک بھیج دیا گیا ہے۔

Image Source: Twitter

فرانسیسی اخبار لی فیگارو کے مطابق وزیر داخلہ جیرالڈ ڈرمانن کی جانب سے ملک کے تمام گورنرز کو ایک ہدایت نامہ جاری کیا گیا، جس میں ملک میں موجود مساجد کی جانچ پڑتال کے حوالے سے آگاہ کیا گیا ہے۔

واضح رہے دو ماہ قبل اکتوبر کے مہینے میں پریس کے ایک نواحی علاقے میں سیمیول پارٹی جاری تھی جہاں ایک نوجوان کی جانب سے ایک استاد کو قتل کر دیا گیا تھا۔ لہذا اس کے بعد سے مسلمانوں کے خلاف چھاپے جبکہ مسلمان تنظیموں اور مساجد کے خلاف دباؤ بڑھا دیا گیا تھا۔

فرانس کے وزیر داخلہ جیرالڈ ڈرمانن نے 3 نومبر کو اپنے خطاب میں بتایا تھا کہ موجودہ فرانسیسی صدر ایمولن میکرون کے 3 سالہ دور میں اب تک فرانس میں 43 مساجد کو بند کردیا گیا ہے۔

Image Source: Anadolu Agency

اگرچہ فرانس کے حوالے سے اگر غور کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ یورپ میں بسنے والے مسلمانوں کی سب سے بڑی تعداد فرانس میں مقیم ہے۔ جبکہ فرانس میں کیتھولسم کے بعد اگر دوسرا کوئی بڑا مذہب ہے تو وہ اسلام ہے۔

اس دوران مشہور فرانسیسی اخبار چارلی ہیبڈو کے پرانے دفتر کے باہر ستمبر کے مہینے میں دو افراد کو چھریوں کے وار سے قتل کردیا گیا تھا، یہی نہیں 29 ستمبر کو مزید تین افراد کو نائس نوٹری ڈیم باسیلیکا کے اندر بہیمانہ طور پر قتل کردیا گیا تھا۔

اس واقعے سے پوری دنیا کی نظریں جہاں فرانس پر مرکوز ہوئیں وہیں پھر ہمیشہ کی طرح آخر میں نشانہ مسلمانوں کو بنایا گیا، شاید فرانسیسی انتظامیہ کو معاملے سے جان چھڑانے کے لئے کوئی آسان ہدف چاہے تھا، اس لئے معاملے کو پوری طرح مسلمان پر ڈال دیا گیا اور یکطرفہ کارروائی شروع کردی گئی۔ تاہم فرانسیسی صدر ایمولن میکرون نے دعویٰ کیا ہے کہ “فرانس شدت پسندی سے لڑ رہا، اسلام سے نہیں”۔ البتہ عمل مختلف دیکھائی دے رہے ہیں۔

اس تمام معاملے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ موجودہ فرانسیسی صدر کی حکومت، ملک میں ہونے والے حالیہ فسادات کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف اپنے سخت موقف کو بڑھاوا دینے کی کوشش کررہی ہے۔


Like it? Share with your friends!

1

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *