
سعودی عرب کی حکومت نے خواتین کو بغیر محرم عمرہ ادا کرنے کی اجازت دیدی۔ سعودی وزیر حج و عمرہ ڈاکٹر توفیق الربیعہ نے اعلان کیا کہ خواتین اب بغیر محرم کے بھی عمرہ ادا کرسکیں گی۔ عمرہ ادائیگی کے لیےمحرم کے ساتھ کی شرط ختم کردی گئی ہے۔
سعودی وزیر حج وعمرہ نے قاہرہ میں سعودی سفارت خانے میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اس تنازعہ کو ختم کردیا کہ آیا محرم کا ایک خاتون حاجی کے ساتھ جانا ضروری ہے یا نہیں۔ان کا کہنا ہے کہ محرم کو اب عمرہ کرنے والی خاتون کے ساتھ جانے کی ضرورت نہیں ہے چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے سے تعلق رکھتی ہوں۔انہوں نے کہا کہ عمرہ ویزہ کی کوئی تعداد مقرر نہیں کی گئی ہے اور دنیا بھر سے کسی بھی قسم کے ویزے پر سعودی عرب آنے والے افراد اب عمرہ ادا کرسکتے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا ہے کہ حرمین شریفین کے عازمین کو سہولتوں کی فراہمی کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اور ڈیجیٹلائزیشن کی گئی ہے جس میں روبوٹس کا استعمال بھی شامل ہے۔ ان کا کہنا ہےکہ مسجد الحرام کے توسیعی منصوبے کی لاگت 200 بلین سعودی ریال سے بڑھ چکی ہے۔ یہ مسجد الحرام کی توسیع کا تاریخ میں سب سے بڑا منصوبہ ہے۔
اس سے قبل سعودی عرب نے خواتین کو کسی مرد سرپرست (محرم) کے بغیر سالانہ حج درخواستیں جمع کروانے کا بھی اعلان کیا تھا۔ یہ اعلان حج کے لیے مقامی عازمین حج کے لیے رجسٹریشن کے رہنما اصول جاری کرتے ہوئے سعودی وزارت حج و عمرہ نے کیا، اُن کا کہنا تھا کہ خواتین کو حج درخواستوں کے اندراج کے لیے مرد سرپرست رکھنے کی ضرورت نہیں ہے اور دیگر خواتین کے ساتھ مل کر بھی ایسا کرسکتی ہیں۔ وزارت حج و عمرہ نے اپنی ٹوئٹ میں کہا تھا کہ حج ادا کرنے کے خواہشمند افراد کو انفرادی طور پر اندراج کرانا پڑے گا، خواتین محرم(مرد سرپرست) کے بغیر بھی دیگر خواتین کے ہمراہ رجسٹریشن کرواسکتی ہیں۔

واضح رہے کہ یہ اعلان ایک ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب کچھ دن قبل ہی یہ اعلان کیا گیا تھا کہ ایک قانونی ترمیم کے نتیجے میں سعودی عرب میں خواتین اب اپنے والد یا مرد سرپرست کی رضامندی کے بغیر آزادانہ زندگی بسر کر سکتی ہیں۔ اس اہم اقدام نے ایک عرصے سے قائم سرپرستی کا نظام ختم کردیا جہاں اس قانون کے تحت بالغ خواتین کو قانونی نابالغ ظاہر کیا جاتا تھا اور ان کے ‘سرپرست’ یعنی شوہر، والد اور دیگر مرد رشتے داروں کو ان پر صوابدیدی اختیارات استعمال کرنے کی اجازت تھی۔ سن 2019ء میں سعودی عرب نے خواتین کو مرد سرپرست کی منظوری کے بغیر بیرون ملک سفر کرنے کی اجازت دے دی تھی۔
مزید برآں ،سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ملک میں اصلاحات کا ایک سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ وہ اب تک کئی ایسی کڑی تبدیلیاں لاچکے ہیں جن کا اس سے قبل سعودی معاشرے میں تصور بھی ناممکن تھا۔ان میں خواتین پرگاڑی چلانے کی پابندی اور ہوٹلوں میں کمرہ بک کرانے جیسی پابندیاں بھی شامل ہیں، جو اب ختم کی جاچکی ہیں۔جبکہ حالیہ عرصے میں سعودی حکومت علماء کو حکومتی پالیسیوں پر کسی بھی قسم کی تنقید کرنے کی وجہ سے گرفتار کررہی ہے۔گزشتہ دنوں بھی سعودی عرب کی عدالت نے سابق امام کعبہ شیخ صالح الطالب کو 10 سال قید کی سزا سنادی۔عرب میڈیا کے مطابق صالح الطالب کو سعودی حکام نے اگست 2018 میں مبینہ طور پر شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے پر امام کعبہ شیخ صالح الطالب کو گرفتار کیا تھا جس کے بعد مقامی عدالت نے انہیں 10 سال قید کی سزا سنادی، شیخ صالح نے گرفتاری سے قبل ’جابر اور مطلق العنان‘ حکمرانوں سے متعلق خطبہ دیا تھا۔
خیال رہے کہ سابق امام کعبہ شیخ صالح الطالب مختلف سعودی عدالتوں میں جج کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں جن میں دارالحکومت ریاض کی ہنگامی عدالت اور مکہ کی ہائی کورٹ بھی شامل ہے جہاں اُنھوں نے گرفتاری سے قبل کام کیا تھا۔ان کے 10 سال قید کی خبر سوائے سعودی عرب کے دنیا بھر کے تمام ذرائع ابلاغ نے شائع کی۔
0 Comments