
جلد پر چیچک جیسے آبلے نکل آنا، جسم سوجنا اور پٹھوں اور سر میں درد ہونا یہ تمام علامات ‘منکی پاکس’ نامی بیماری کی ہیں اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق حالیہ لہر میں جن ممالک میں منکی پاکس انفیکشن کے کیسز رپورٹ ہوئے ان میں فرانس، بیلجیم، جرمنی، آسٹریلیا، اسپین، برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا سمیت دیگر ممالک شامل ہیں۔ اس نایاب وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ نے ماہرین صحت کوتشویش میں مبتلا کردیا ہے کیونکہ اس سے پہلے یہ وائرس صرف افریقی ممالک میں پایا جاتا تھا اور اب پہلی بار یہ وائرس افریقی ممالک سے نکل کر دنیا کے مختلف ممالک میں بھی پھیل رہا ہے۔
اس تناظر میں یہ بات ماہرین کے لئے زیادہ تشویش کا باعث ہے کہ اس وائرس کی تشخیص ایسے افراد میں بھی ہوئی ہے جو کبھی افریقہ گئے ہی نہیں۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ وائرس یورپ اور امریکہ کے اندر بھی پھیل چکا ہے۔تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس وائرس سے کسی بڑی آبادی کو نقصان پہنچنے کا فی الحال امکان موجود نہیں۔

منکی پاکس ہے کیا؟

ماہرین کے مطابق منکی پاکس جنگلی جانوروں خصوصاً بندروں، چوہوں اور گلہریوں جیسے متاثرہ جانوروں کے رابطے میں آنے سے بھی پھیل سکتا ہے۔ تاہم متاثر شخص کے قریب رہنے والے افراد میں بھی وائرس منتقل ہونے کا امکان ہے۔ پہلی مرتبہ اس بیماری کی شناخت 1958 میں ہوئی تھی، ایک تحقیق کے دوران سائنسدانوں نے بندروں کے جسم پر کچھ پاکس یعنی دانے دیکھے تھے جنہیں منکی پاکس کا نام دیا گیا تھا۔جبکہ انسانوں میں منکی وائرس کے پہلے کیس کی تشخیص افریقی ملک کانگومیں 1970 میں ایک نو سالہ بچے میں ہوئی تھی۔
یہ کیسے پھیلتا ہے؟

منکی پاکس ، چیچک جیسے وائرس کی شاخ میں سے ہے۔یہ وائرس پھٹی ہوئی جلد، سانس کی نالی یا آنکھوں، ناک یا منہ کے ذریعے جسم میں داخل ہوسکتا ہے۔ اسے پہلے جنسی طور پر منتقل ہونے والے انفیکشن کے طور پر بیان نہیں کیا گیا تھا، لیکن یہ جنسی تعلقات کے دوران براہ راست رابطے سے منتقل ہو سکتا ہے۔
اس کی علامات کیا ہیں؟

اس کے نتیجے میں بخار کی علامت ظاہر ہوتی ہے۔ اس میں مریض کے جسم پر آبلے ابھر آتے ہیں، جسم سوج جاتا ہے، پٹھوں میں اور سر میں درد ہوتا ہے۔ وائرس سے زیادہ متاثر ہونے والے افراد کو شدید خارش اور جسم کے مختلف حصوں پر دانے نکلنے کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ جو اکثر چہرے سے شروع ہوتے ہیں، پھر جسم کے دوسرے حصوں، عام طور پر ہاتھوں کی ہتھیلیوں اور پاؤں کے تلوے تک پھیل جاتے ہیں اور انتہائی خارش یا تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ تاہم یہ دانے میں بدلنے سے قبل مختلف مراحل سے گزرتے ہیں اور بعد میں یہ دانے سوکھ کر گر جاتے ہیں لیکن ان کے زخموں سے داغ پڑ جاتے ہیں۔اس انفیکشن کے اثرات پانچ سے تین ہفتوں میں ظاہر ہوتے ہیں جبکہ متاثرہ افراد دو سے چار ہفتوں کے درمیان صحت یاب ہوجاتے ہیں۔
کیا یہ جان لیوا ہے؟

یہ وائرس 10 میں سے ایک فرد کے لیے جان لیوا ثابت ہوتا ہے اوربچوں پر زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ اس لئے یورپین سینٹر فار ڈیزیز پریوینشن اینڈ کنٹرول نے دنیا بھر کے ماہرین کو یہ مشورہ دیا کہ منکی پاکس سے متاثرہ افراد کو آئسولیشن میں رکھا جائے اور زیادہ متاثرہ افراد کو سمال پاکس کی ادویات دی جائیں۔
اس کا علاج کیا ہے؟

منکی پاکس وائرس کے انفیکشن کا فی الحال کوئی ثابت شدہ، محفوظ علاج نہیں ہے، منکی پاکس کے لیے کوئی مخصوص ویکسین بھی موجود نہیں ہے، لیکن اس میں چیچک کا ٹیکہ 85 فیصد تحفظ فراہم کرتا ہے کیوں کہ دونوں وائرس کافی ایک جیسے ہیں۔ امریکا میں منکی پاکس کی وبا کو کنٹرول کرنے کے مقاصد کے لیے، چیچک کی ویکسین، اینٹی وائرلز، اور ویکسینیا امیون گلوبل کا استعمال کیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں بھی منکی پاکس وائرس کے پھیلنے کا خدشہ ہے، اس سلسلے میں محکمۂ صحت سندھ کی جانب سے ہائی الرٹ جاری کردیا گیا ہے اور منکی پاکس سے بچاؤ کے لیے لیبارٹری، سرویلنس کے عمل کو بڑھانے کی ہدایت بھی جاری کردی گئی ہے۔
0 Comments