
‘خواجہ سرا’ کا نام آتے ہی ہمارے ذہنوں میں ایک مخصوص خاکہ تیار ہو جاتا ہے، جیسکہ وہ لوگ جو سڑکوں پر ناچتے گاتے اور بھیگ مانگتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بلاشبہ ہمارا معاشرتی رویہ ان لوگوں کے ساتھ ہمیشہ سے غیرانسانی اور غیراخلاقی رہا ہے، ہم نے انہیں کبھی انسان سمجھا ہی نہیں جس کا نتيجہ یہ نکلا کہ معاشرے کا یہ مظلوم طبقہ پستی سے مزید پستی کی طرف چلا گیا۔ مگر خوش قسمتی سے گزشتہ چند سالوں سے اس طبقے میں تبدیلی رونما ہوتی نظر آرہی ہے ان میں سے بعض نے ناچ گانے اور بھیک مانگنے کے بجائے مختلف تعلیمی شعبہ جات میں اپنی صلاحیتوں کو منوانے کو ترجیح دینا شروع کردی ہے جو کہ خوش آئند بات ہے۔
اب کوئی خواجہ سرا وکالت کے شعبے سے منسلک ہو رہا ہے ، کوئی مدرسے میں دینی تعلیم دے رہا ہے، تو کوئی نیوز چینل میں اینکر کے فرائض سرانجام دیتا نظر آرہا ہے۔ان خواجہ سراؤں میں سے ایک نام سارہ گل کا ہے جنہوں پاکستان کی پہلی خواجہ سرا ڈاکٹر بننے کا اعزاز اپنے نام کرلیا ہے۔

خواجہ سرا سارہ گل نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ڈاکٹر بننے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ محنت اور عزم سے کوئی بھی چیز حاصل کی جاسکتی ہے، ڈاکٹر بننے کے لیے انہوں نے بہت محنت کی ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والی سارہ گل نے جامعہ کراچی سے الحاق شدہ ادارے جناح میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج (جے ایم ڈی سی ) سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔
سارہ گل کا اس حوالے سے اپنے ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ اگر میں یہ کرسکتی ہوں تو باقی خواجہ سرا بھی یہ کرسکتے ہیں۔ اگر آپ کسی چیز کے بارے میں پرجوش ہیں تو آپ کو کوئی اس کو حاصل کرنے سے نہیں روک سکتا ، زندگی میں مشکلات آتی ہیں، میں پاکستان کا نام روشن کرنا چاہتی تھی اور ڈاکٹر بننے کے بعد میرے والدین نے بھی مجھے قبول کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی سے کہنا چاہتی ہوں کہ امید نہ ہاریں، اگر میں ڈاکٹر بن سکتی ہوں تو آپ میں سے کوئی بھی محنت کر سکتا ہے اور کامیاب ہو سکتا ہے۔ انہوں نے اس بارے میں بھی بات کی کہ کس طرح والدین اپنے ٹرانس جینڈر بچوں کو معاشرے کے دباؤ کی وجہ سے گھروں سے باہر پھینک دیتے ہیں اور معاشرے کے لوگوں کا رویہ ان کے ساتھ کیسا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے کے دباؤ کی وجہ سے اپنے بچوں کو گھروں سے باہر پھینکنا بند کریں، یہ صرف شروعات ہے مستقبل میں حالات بہتر ہوں گے انشاء اللہ۔
سارہ گل کی طرح خواجہ سرا جیا خان نے ناچ گانا چھوڑ کر ٹیلرنگ کا کام سیکھا اور باعزت روزگار کمانے کو ترجیح دی، آج وہ اپنی محنت اور لگن سے کراچی کے اہم کاروباری مرکز صدر میں اپنی دکان چلا رہی ہیں۔ جیا خان کا تعلق پنجاب سے ہے، بین الاقوامی ادارے رائٹرز سے گفتگو میں انہوں نے بتایا تھا کہ وہ گزشتہ 20 سال سے کراچی میں رہائش پذیر ہیں اور ٹیلر بننے سے قبل وہ بھی عام خواجہ سراؤں کی طرح ڈانس پرفارمنس کرتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹیلرنگ کا کام ایسا ہے کہ عمر کے کسی بھی حصے میں سیکھا جاسکتا ہے تو میں نے کپڑے سینے کا کام پیشہ ورانہ طور پر سیکھا اور آج بطور درزن یہ کام کررہی ہوں۔
مزید پڑھیں: خواجہ سرا رانی نے بھیک اور ڈانس چھوڑ کر اپنا مدرسہ کھول لیا
خیال رہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے 2018 میں تیسری صنف کو تسلیم کیا اور ان کو بنیادی حقوق جیسے ووٹ ڈالنے اور ان کی صنف کو سرکاری دستاویزات پر منتخب کرنے جیسے بنیادی حقوق حاصل ہوئے۔ تاہم 2017 کی مردم شماری میں تقریباً 10،000 ٹرانس جینڈر افراد کی تعداد ریکارڈ کی گئی اگرچہ ٹرانس رائٹس گروپس کا کہنا ہے کہ 220 ملین آبادی کے ملک میں یہ تعداد بڑھ کر 300،000 سے زیادہ ہوسکتی ہے۔
0 Comments