
نوجوان ہر قوم کا اثاثہ سمجھے جاتے ہیں جو قوم اور ملک کی ترقی میں نہ صرف اہم اور ذمہ دارانہ کردار ادا کرتے ہیں بلکہ معاشرے کو اخلاقی اقدار، سماجی، ثقافتی اور تخلیقی ذہنوں سے روشناس کرواتے ہیں ۔ لیکن آج کے اس دور میں انہی نوجوانوں کی بیروزگاری ایک المیہ بن چکی ہے۔ جس کا حل خاص طور پر وطن عزیز میں دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ ہمارے پاس ہزاروں کی تعداد میں پڑھے لکھے نوجوان موجود ہیں جن کے پاس ڈگری ہے اور وہ کام کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں مگر مناسب مواقع فراہم نہ ہونے کی وجہ سے اپنی فیلڈ میں کام نہیں کر پا رہے ہیں۔
ایسے ہی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان عمر ایوب بھی ہیں جن کا تعلق اسلام آباد سے ہے اور وہ ایف الیون کے علاقے میں ایک پوش پلازے کے عین سامنے چھوٹے سے ٹھیلے پر ممبئی کا مشہور ’برگر‘ بنا کر فروخت کرتے ہیں، جس کا نام انہوں نے ’ایم بی اے وڑا پاؤ‘ رکھا ہے۔

عمر ایوب جنہوں نے 2019 میں بحریہ یونیورسٹی سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی ہے لیکن انہیں ملازمت کے حصول میں مسلسل مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور جب کورونا وبا کی وجہ سے ان کے معاشی حالات اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا تو انہوں نے اپنا کام کرنے کی ٹھانی۔
خبر رساں ادارے انڈیپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے عمر ایوب نے بتایا کہ انہوں نے 2019 میں اپنی ڈگری مکمل کی تھی، لیکن مارکیٹ میں نوکریاں کم تھیں اس لئے انہیں ملازمت نہیں مل سکی پھر اسی دوران کورونا کی وبا آگئی۔ کاروبار زندگی مفلوج ہوگیا اور جوبے چارے ملازمت پر تھے انہیں بھی نکال دیا گیا تو انہوں نے سوچا کہ کیوں ناوہ اپنا کام شروع کر کے بیروزگاری کا توڑ نکالیں اور اس کے ساتھ اپنی ایم بی اے کی ڈگری بھی جوڑ دیں۔

اس طرح عمر ایوب نے ستمبر کے شروع میں ایم بی اے وڑا پاؤ کا ٹھیلا لگایا۔ وہ ہر روز شام چار بجے یہاں پہنچتے ہیں اور رات ایک بجے تک وڑا پاؤ فروخت کرتے ہیں۔ یہ ایک بھارتی اسٹریٹ فوڈ جس میں آلو کی ٹکیہ کو بن میں مختلف چٹنیوں کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اسٹریٹ فوڈ میں بریانی اور انڈہ شامی برگر عام ہے لیکن وڑا پاؤ ایک مختلف چیز ہے جو راولپنڈی اسلام آباد میں موجود نہیں تھا۔ میں نے پڑھائی کے دوران یہ چیز سیکھی تھی کہ اگر مارکیٹ میں جلدی نام بنانا ہے تو کوئی منفرد چیز لے کر آئیں اس لئے میں نے وڑا پاؤ کے ساتھ اپنی ڈگری کا نام لکھ دیا کہ میں بے روزگار ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے کام کا آغاز کیا تھا تو پورے دن میں صرف دو وڑا پاؤ ہی بیچ سکے تھے مگر اب ایک ہفتے بعدان کا تمام اسٹاک بِک جاتا ہے۔ گاہک وڑا پاؤ کھانا پسند کرتے ہیں اور وہ روزانہ 70 سے 80 وڑا پاؤ بیچتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس کام میں ان کی والدہ نے ان کی بہت زیادہ مدد کی اور انہیں وڑا پاؤ کی چٹنیاں بناکر دیں۔
اعلیٰ تعلیم ہونے کے باوجود عمر ایوب اب اپنے کام سے خوش ہیں اور کہتے ہیں کہ شاید اب وہ کبھی نو سے پانچ کی لگی بندھی نوکری نہ کریں کیونکہ وہ اپنے کام میں زیادہ مطمئن ہیں۔
گزشتہ کچھ عرصے سے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافے سے ہر کوئی پریشان ہے، ایسے حالات میں عالمی وبا کورونا کے سبب لاک ڈاؤن نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی اور اچھے اور پڑھے لکھے افراد بھی نوکری نے ہونے اور محدود وسائل کی وجہ سے معمولی نوعیت کے کاروبار کرنے پر مجبور ہیں۔
مزید پڑھیں: اکنامکس میں بیچلرز نوجوان نے نوکری نہ ملنے پر فرینچ فرائز کا اسٹال لگا لیا
پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر اسلام آباد کے علاقے بلیو ایریا میں بریانی فروخت کرنے والے محمد عمر کمال کی کہانی بھی کافی وائرل ہوئی تھی جو سیور فوڈز کے پاس “ہوم میڈ بریانی “ کی صدائیں لگا کر چکن بریانی بیچتے ہیں۔ انہوں نے یونیورسٹی آف بہاولپور سے پولیٹیکل سائنس اور انگریزی جب کہ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات عامہ میں ماسٹرز کرنے کے ساتھ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) اور کینیڈا کی میک گل یونیورسٹی سے انٹرپرائز مینجمنٹ کی ٹریننگ حاصل کی ہے اور وہ پیشے کے اعتبار سے ڈویلپمنٹ پروفیشنل ہیں، مگر بے روزگاری وجہ سے انہوں نے اپنا کام شروع کیا۔
Story Courtesy: Independent Urdu
0 Comments