
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد کے ریکٹر پروفیسر ڈاکٹر محمد تبسم افضل نے انکشاف کیا ہے کہ کامسیٹس یونیورسٹی مچھروں کے ذریعے ویکسین لگانے پر کام کر رہی ہے ، جس میں پہلے ویکسین مچھر کو لگائی جائے گی، پھر مچھر جسے کاٹے گا اس کی ویکسینیشن ہوجائے گی۔
قائمہ کمیٹی کے بریفینگ سیشن کے دوران ، یونیورسٹی ریکٹر نے بتایا کہ یونیورسٹی کے طلباء مچھروں پر تحقیق کر رہے ہیں تاکہ انہیں بیماری کے بجائے ویکسین کے کیریئر کے طور پر استعمال کیا جاسکے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل 2011 میں جاپانی محققین کے ایک گروپ نے مچھروں کو ویکسین کے طور پر استعمال کرنے کا خیال پیش کیا تھا کیونکہ مچھر تیزی سے بیماریاں پھیلاتے ہیں۔ دراصل مچھر جب انسان کو کاٹتے ہیں تو تھوک کا ایک چھوٹا سا قطرہ لگاتے ہیں ، جو خون کو جمنے سے روکتا ہے۔
محققین کے ایک گروپ نے اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے چوہوں پر یہ تحقیق کی تو ان چوہوں نے مچھروں کے خلاف اینٹی باڈیز تیار کرلیں لیکن اینٹی باڈیز تیار کرنے سے پہلے چوہوں کو دن میں کم از کم 1500 بار مچھروں سے کٹوانا پڑا تھا۔ تاہم اس تحقیق سے محققین اس بات کا تعین نہیں کرسکے کہ یہ اینٹی باڈیز انسانوں میں انفیکشن کو روکنے میں کارآمد ثابت ہوں گی یا نہیں ۔کامسیٹس یونیورسٹی کے طلباء بھی اسی خیال پر کام کر رہے ہیں۔

اس حوالے سے بریفینگ کے دوران جب قائمہ کمیٹی کی جانب سے یہ سوال اٹھایا گیا کہ اگر ویکسین لگانے والا مچھر نے انسان کو کئی بار کاٹ لیا تو پھر کیا ہوگا؟ اس سوال پر ڈاکٹر تبسم کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دے سکے بلکہ انہوں نے کہا اس سوال کی وضاحت منصوبے پر کام کرنے والے طلباء بہتر طور پر کرسکتے ہیں۔ اگرچہ اس بارے میں پچھلی تحقیق کوئی نتیجہ دینے میں ناکام رہی تھی لیکن اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کامسیٹس یونیورسٹی کے طلباء کو اس تحقیق میں کامیابی ملتی ہے یا نہیں۔

دوسری جانب ، اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا صارفین ویکسینیشن کے اس منفرد طریقے کار پر دلچسپ تبصرے اور تجزئیے پیش کر رہے ہیں۔
علاوہ ازیں ، اس سال کے شروع میں کامسیٹس یونیورسٹی ایبٹ آباد میں چوتھے سمسٹر کے بائیو ٹیکنالوجی کے طالب علم عمیر مسعود کو بین الاقوامی امریکی تنظیم لیب روٹ نے ینگ سائنسدان ایوارڈ سے نوازا تھا۔ طالبعلم نے آسٹریلیا میں مالیکیولر بائیولوجی اور بائیو کیمسٹری پر بین الاقوامی کانفرنس میں دو تحقیقی مقالے پیش کیے۔ اس تحقیقی مقالے کا مقصد موروثی بیماریوں میں مبتلا مریضوں میں بیماری کا جلد اور سستے طریقے سے پتہ لگانا ہے۔ ان کا ایک تحقیقی مقالہ یورپی جرنل آف تجرباتی حیاتیات میں شائع ہوا ہے۔ جبکہ دوسرا مقالہ رائل سوسائٹی آف سائنس جرنل میں شائع ہواہے جو کہ موروثی بیماریوں کے ساتھ دیگر بیماریوں کے علاج میں مدد فراہم کرنے پر ہے۔
یاد رہے حال ہی میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خطرے پیش نظر، حکومت سندھ کی جانب سے فیصلہ کیا گیا تھا کہ گیارہویں اور اس کے آگے کے تمام طلباء کے لیے اب کورونا ویکسینیشن کروانا لازمی ہوگی۔ اگر کوئی طالب علم اس پر عمل کرے گا، انہیں کراچی بھر کے کسی بھی کالج میں داخلہ نہیں دیا جائے اور نہ انہیں کالج کے اندر جانے کی اجازت ہوگی۔
0 Comments