
بندروں کو عام طور اس کی شرارتوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے، جبھی انسان بھی اس کی شرارتوں سے خوب محظوظ ہوتے ہیں۔ پاکستان میں بندر بہت سے لوگوں کا زریعہ معاش بھی ہے ، گلی محلوں میں مادری اپنے بندروں کو ڈگڈگی پر ڈانس کرواتے ہیں جسے بچے اور بڑے سبھی شوق سے دیکھتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔
بندر کے اس ڈانس کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہو رہی ہے، جس میں ڈانس کے نام پر بندر کے بچے کے ساتھ ہونے والے تشدد نے صارفین کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی اور اس ویڈیو پر کئی سوال اٹھ گئے ہیں ۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر سیو دی وائلڈ کی جانب سے شیئر کی گئی، ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ دو لڑکے ایک بندر کے بچے گلے میں رسی بندھ کر کرتب دیکھا رہے ہیں اور اسے کھلونے کی طرح اچھال رہے ہیں اور پھینک رہے ہیں جس سے بندر کے بچے کو اذیت مل رہی ہے۔ ان میں سے ایک شخص کی شناخت میاں احمد کے نام سے ہوئی ہے۔
اس ویڈیو پر صارفین کی جانب سے سخت ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے کیونکہ اس طرح کسی بھی جانور کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک ناقابل برداشت عمل ہے۔صارفین کا کہنا ہے کہ محض تفریح کے لئے معصوم جانور پر تشدد کرنا بالکل غلط ہے اور اس طرح کی ویڈیوز زیادہ تر کسی کے دھیان میں نہیں آتیں اس لئے ایسے لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ہے۔

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر شادی کی تصاویر میں نوبیاہتا جوڑے کے اسٹیج پر شیر کا ایک بچہ بیٹھا دیکھا گیا۔ اس سے قبل جیلانی پارک لاہور میں جاری جشن بہاراں کی تقریب میں بھی شہری شیر کا ایک بچہ لے آئےتھے۔ ان واقعات کے بعد پنجاب وائلڈ لائف نے شادی بیاہ سمیت دیگر تقریبات میں جنگلی جانوروں خاص طور پر شیر کے بچوں کی نمائش کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا۔
مزید پڑھیں: چڑیا گھر میں سفید ٹائیگر کے 2 بچوں کی موت
واضح رہے کہ پاکستان میں گزشتہ کئی ماہ سے چڑیا گھروں میں جانوروں کے عدم تحفظ پر تشویش پائی جاتی ہے۔ ماضی قریب میں کاون ہاتھی کی واپسی سمیت کئی جانوروں کے بیمار ہونے کے بعد اب بہاولپور کے چڑیا گھر میں نایاب نسل کے سات ہرن ہلاک ہونے کی اطلاع سامنے آئی ہے، جب کہ بارہ کی حالت تشویشناک بتائی گئی۔
دراصل یہ معاملہ اس وقت سے زیادہ زیر بحث ہے جب سے رواں سال مئی میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایک شہری کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے مرغزار چڑیا گھر اسلام آباد میں جانوروں کی حالت پر تشویش کا اظہار کیا۔ کاوان ہاتھی کی دیکھ بھال نہ ہونے پر عدالت نے قرار دیا تھا کہ جانوروں کی دیکھ بھال نہیں کی جارہی اور وہ عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
عدالت نے حکم نامے میں کہا گیا کہ چڑیا گھروں میں جانوروں کے لیے سہولیات کا فقدان ہے جس کے باعث جانور اذیت میں مبتلا ہیں جو کہ جنگلی حیات کے آرڈیننس کی خلاف ورزی ہے۔ اس فیصلے کے بعد دنیا کے تنہا ترین کاون ہاتھی کو پاکستان میں قدرتی ماحول میں رکھنے کی کوئی سنکچوری نہ ہونے کی وجہ سے کمبوڈیا بھیجنا پڑے پھر وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ نے دو ہمالیائی ریچھوں سوزی اور ببلو کو اُردن منتقل کرنے کی یقین دہانی کروائی۔
0 Comments