
کورونا وباء نے پوری دنیا کو جس بری طرح متاثر کیا، اس کی مثال شاید ہی ماضی قریب میں ملتی ہو۔ اس بیماری نے کالے گورے، امیر غریب، مسلم، غیر مسلم تمام افراد کو بلاتفریق اپنا شکار بنایا۔ اس مہلک وباء نے جہاں دنیا کو جانی اور مالی اعتبار سے تباہ اور برباد کیا وہیں لوگوں میں انسانی یکجہتی کے جذبے کو بھی بیدار کیا کہ اختلافات اور محاذ آرائی کا نتیجہ بلاشبہ کچھ نہیں ہے۔ آخر میں انسان کو محض انسان کی ضرورت ہے اور اس کی سب سے بڑی مثال اسپین کے شہر بارسلونا میں دیکھی گئی، جہاں کورونا وباء کے باعث مسلمانوں کو روایتی انداز میں افطار اور عبادات میں مشکلات کا سامنا تھا لیکن اب ایک کیتھولک چرچ مسلمانوں کو یہ تمام سہولیات کھلی فضا میں فراہم کر رہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق ہر شام 50 سے 60 کے قریب بےگھر مسلمان روزانہ ایک صدیوں پرانے سینٹا اینا چرچ آتے ہیں، جہاں وہاں پر موجود رضا کار زبردست اور ذائقہ دار کھانوں سے ان کی تواضع کرتے ہیں۔

اس ہی سلسلے میں مراکش سے تعلق رکھنے والے بربر نسل کے 27 سالہ حافظ اوبراہیم کا کہنا تھا کہ ہم سب ایک جیسے ہیں، اگر آپ کیتھولک ہیں یا دوسرے مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ میں مسلمان ہوں، جس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم سب بھائیوں جیسے ہیں اور ہمیں ایک دوسرے کی مدد بھی کرنی چاہئے۔

واضح رہے دنیا بھر میں موجود مسلمان رمضان المبارک کے مہینے میں طلوع آفتاب سے لیکر غروب آفتاب تک کھانے پینے سے اجتناب کرتے ہیں، جسے روزہ کہا جاتا ہے جبکہ غروب آفتاب کے فوری بعد کھانا پینا شروع کرتے ہیں، جیسے افطاری کہا جاتا ہے۔
کیٹلانا ایسوسی ایشن آف مراکن ویمن کی صدر فوزیہ چیئی جوکہ ماضی میں شہر میں افطار ڈنر کا اہتمام کیا کرتی تھیں لیکن انڈور کھانا کھانے پر عائد پابندی کے باعث انہیں ہوادار اور سماجی فاصلے والی جگہ کی ضرورت تھیں۔ چنانچہ اس مسئلے کے حل کے لئے قدیم سینٹا اینا چرچ کے فادر ریکٹر پیئو سانچیز سامنے آئے جو مختلف عقائد کے افراد کو ساتھ بیٹھانے کو شہریوں کی برابری کے مترادف سمجھتے ہیں۔

فوزیہ چیئی کے مطابق لوگ بہت خوش ہیں کہ مسلمان ایک کیتھولک چرچ میں افطار کر سکتے ہیں، اور یہی مذاہب کا درس ہے، مذہب ہمیں انتشار کے بجائے متحد ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔

سینٹا اینا چرچ کے مرکزی صحن میں گیس بیٹر کے ہلکے شعلوں میں درختوں کی اوٹ میں ایک آدمی کی جانب سے بلند آواز میں اذان سنائی دیتی ہے۔
اس موقع سینٹا اینا کے فادر ریکٹر پیئو سانچیز کے مطابق ہم مختلف ثقافتوں، مختلف زبانوں، مختلف مذاہب رکھنے کے باوجود، کچھ سیاست دانوں کے مقابلے میں بیٹھ کر بات کرنے کی زیادہ اہلیت رکھتے ہیں۔
یاد رہے اس طرح گزشتہ برس جرمنی کے درالحکومت برلن میں بھی بین المذاہب یکجہتی کا ایک خوبصورت اور دلفریب منظر دیکھا گیا تھا، جہاں جمعتہ الوداع کی نماز کی ادائیگی کے لئے مارتھا لہوتھوین نامی مقامی چرچ کی انتظامیہ نے مسلمانوں کے لئے چرچ کے دروازے کھول دیئے تھے۔
0 Comments