اردو زبان کے انقلابی شاعر فیض احمد فیض کی 37 ویں برسی


0

جو رُکے تو کوہ گراں تھے ہم
جو چلے تو جاں سے گزر گئے

انقلاب، جدت اور شخصی آزادی کے علمبردار فیض احمد فیض کو کون بھول سکتا ہے۔ فیض نے اپنی انقلابی فکر اور خوبصورت لب ولہجے کو ملا کر ایک ایسا انداز بیاں اپنایا جس سے اردو شاعری میں ایک نئی جمالیاتی حسن پیدا ہوگیا۔ بلاشبہ انقلابی شاعری کی تاریخ فیض کے تذکرے کے بغیر مکمل ہی نہیں ہو سکتی ہے ۔

ان اصل نام فیض احمد تھا اور وہ 13 فروری 1911ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے انگلش اور اورنیٹل کالج لاہور سے عربی میں ایم اے کیا۔ انہیں روسی اور فارسی سمیت چھ زبانوں پر عبور تھا۔ 1951 میں آپ نے ایم اے او کالج امرتسر میں لیکچرر کی حیثیت سے ملازمت کی اور پھر ھیلے کالج لاہور میں 1942 میں آپ فوج میں کیپٹن کی حیثیت سے شامل ہوگئے اور محکمہ تعلقات عامہ میں کام کیا۔ 1943 میں آپ میجر اور پھر 1944 میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے تک پہنچ کر مستعفی ہوگئے۔

Image Source: Dawn

معاشرتی مساوات اور انسانی حقوق کےعلمبردار ،اُردو کے عہدساز شاعر فیض احمد فیض نے اپنی شاعری اور نثری تحریروں میں مظلوم انسانوں کے حق میں آواز اُٹھائی اور انسان پر انسان کے جبر کو قبول کرنے سے انکار کیا۔ وہ اپنی شاعری سےغریبوں خاص طور پر محنت کش طبقے کی آواز بنے۔ اپنے نظریات کے سبب ان کو قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں لیکن انہوں نے حق گوئی ترک نہ کی۔

Image Source: Wikipedia

فیض کی معروف تصانیف میں “نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، شام شہر یاراں، مرے دل مرے مسافر اور نسخہ ہائے وفا”شامل ہیں۔ اس کے علاوہ نثر میں انہوں نے “میزان، صلیبیں مرے دریچے میں، متاع لوح و قلم، ہماری قومی ثقافت اور مہ و سال آشنائی “جیسی کتابیں تحریر کیں۔ ان کوعلمی و ادبی خدمات پر متعدد عالمی اور قومی اعزازات سے نوازا گیا۔ وہ چار بار نوبل انعام کے لیے نامزد ہوئے۔ اس کے علاوہ 1962ء میں ان کو لینن پیس پرائز سے نوازا گیا، انہوں نے نشان امتیاز اور نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا۔

مزید پڑھیں: اردو ادب کے باکمال شاعر جون ایلیا کی برسی آج منائی جا رہی ہے

فلمی انڈسٹری کے لیے بھی ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ان کا کلام محمد رفیع، ملکہ ترنم نور جہاں، مہدی حسن، آشا بھوسلے اور جگجیت سنگھ جیسے گلوکاروں کی آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا۔ جب کہ انہوں نے درجنوں فلموں کے لئے غزلیں، گیت اور مکالمے بھی لکھے۔ فیض احمد فیض 20 نومبر 1984ء کو جہاں فانی سے کوچ کرگئے اور لاہور میں آسودہ خاک ہیں۔

مزید پڑھیں: اردو زبان کے لفظ “اچھا” کو کیمبرج ڈکشنری میں شامل کرلیا گیا

ہمیشہ جدت پسندی اور جمہوریت کی بات کرنے والے فیض احمد فیض کی ترقی پسند سوچ آج بھی زندہ ہے۔ وہ اردو شاعری میں ترقی پسند تحریک کے سب سے بڑے شاعر تھے، ان کی فکر انقلابی تھی اور بلاشبہ وہ اس عہد کے ایسے شاعر اور انسان تھے جو روز روز پیدا نہیں ہوتے۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *