ذیابطیس کے مریضوں کیلئے خوشخبری، جلد شوگر فری آم دستیاب ہونگے


0

کہتے ہیں پھلوں کے بادشاہ آم کا کوئی ثانی نہیں ہے، یہ پھل مختصر عرصے کے لئے ضرور آتا ہے۔ اور جب آتا ہے، تو پھر ہر طرف اس ہی کی ہی دھوم اور گونج سنائی دیتی ہے۔ آم بیشتر لوگوں کا پسندیدہ پھل ہوتا ہے۔ لیکن افسوس میٹھے مذائقے کے باعث دنیا بھر میں ذیابطیس کے مریض اس پھل کو کھا نہیں پاتے ہیں۔ تاہم اب ان تمام مریضوں کو فکر کی ضرورت نہیں، ٹنڈو الہ یار کے ایک نجی فارم نے شوگر فری آم تیار کئے ہیں، جس شوگر کی کل تعداد محض 4 سے 6 فیصد ہے۔

تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ کے شہر ٹنڈو الہ یار میں واقع ایم ایچ پہنور نامی فارم نے اپنی پانچ سالہ تحقیق اور سائنسی موڈیفکیشن کے بعد شوگر فری عام تیار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ جس کے بعد ذیابیطس کے مریض بغیر کسی ڈر وخوف کے اپنے پسندیدہ پھل آم کا استعمال کرسکتے ہیں۔ یہ عام مارکیٹ میں سونارو، گلین اور کیت کے نام سے دستیاب ہے۔

Image Source: TF Net

محمد حسین پہنور کے بھتیجے غلام سرور پہنور اور آموں کے کاشت کے ماہر نے اے آر وائی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ محمد حسین پہنور کو نامیاتی کاشتکاری (آرگینک فارمنگ) میں ان کے ریسرچ آرٹیکلز اور مینولز کے باعث انہیں خوب شہرت حاصل رہی ہے۔ اس سلسلے میں حکومت پاکستان کی جانب سے پھلوں خاص کر آم اور کیلوں کے شعبے میں کی گئی تحقیق کو سراہتے ہوئے ستارہ امتیاز سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ ان کے انتقال کے بعد میں نے اس کام کو جاری رکھا اور اس ماحول اور مٹی میں اس کی نمو کو جانچنے کے لئے آم کی مختلف انواع درآمد کرکے اس میں نئی جدت ڈالنے کی کوشش کیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ منصوبہ ذاتی بنیاد پر چلایا جا رہا ہے، ہم نے اس منصوبے کے لئے کسی حکومتی محکمے سے کوئی مدد نہیں لی ہے۔ میں ان آموں کی اقسام کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر متعارف کروانا چاہتا ہوں۔ ہم صرف اپنے فائدے کے لئے کام نہیں کرتے ہیں، ہم قومی مفادات کے بارے میں سوچتے ہیں۔

غلام سرور پہنور کے مطابق ان کے 300 ایکڑ پر مشتمل فارم میں آم کی 44 امتیازی اقسام دستیاب ہیں، جن میں دیر ، وسط اور ابتدائی اقسام شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنی تحقیق تین شعبوں پر مرکوز کی: نئی اقسام متعارف کروانا ، آم کے پھلوں کی شیلف یعنی زندگی میں اضافہ کرنا ، اور ذیابیطس کے شکار لوگوں کے لئے شوگر کی سطح کو کم کرکے آم متعارف کرانا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان کوششوں کا مقصد برآمدات میں اضافے کے لئے راستے تلاش کرنا ہے۔ آم کی پچھلی شیلف زندگی ایک ہفتہ تھی ، جبکہ اب اسے دو ہفتوں تک بڑھا دیا گیا ہے۔

Image Source: ARY News

آموں میں سندری اور چونسہ سمیت بڑی اقسام میں 12 سے 15 فیصد تک چینی پائی جاتی ہے۔ ان کے کھیتوں میں اب چار سے پانچ اقسام دستیاب ہیں، جن میں صرف 4 سے 5 فیصد چینی کی سطح ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ، “کیٹ کی اقسام میں سب سے کم چینی کی سطح 4.7 فیصد ہے جبکہ سونارو اور گلن میں چینی کی سطح بالترتیب 5.6 فیصد اور 6 فیصد تک ہے۔”

مزید پڑھیں: آم کی افادیت اتنی عام نہیں، موٹاپے سمیت کئی بڑی بیماریوں کا علاج ہے

غلام سرور پہنور کا مزید کہنا تھا کی ذیابیطس کے مریض 6 فیصد تک چینی استعمال کرسکتے ہیں، کوئی بھی ڈاکٹر شوگر متاثرہ مریضوں کو۔شوگر کی سطح صفر فیصد تک محدود رکھنے کی تجویز نہیں کرتا ہے۔

اس موقع پر جب آم ایکسپرٹ غلام سرور پہنور سے بغیر چینی کے آموں قیمت کے حوالے سے سوال ہوا، تو انہوں نے بتایا کہ اس کی قیمت ناصرف مناسب ہوگی، بلکہ پاکستان میں باآسانی دستیاب ہوگا۔ جیسا کہ موجودہ آموں کی قیمتیں ہیں 150 کے قریب، اس کی بھی تقریباً اتنی ہی قیمت ہوگی۔ لہذا جوں ہی سندھڑی اور چونسا کا سیزن اپنے اختتام کو پہنچے گا، یہ آم عان مارکیٹوں میں دستیاب ہوگا۔

واضح رہے پاکستان میں پیدا ہونے والا آم دنیا اپنی ایک الگ شناخت رکھتا ہے، جہاں لوگ ناصرف اپنے عزیز واقارب کو پاکستان سے دیگر ممالک آم بھجواتے ہیں، وہیں پاکستانی آم دنیا کے کئی ممالک میں ایکسپورٹ بھی کیا جاتا ہے۔

Story Courtesy: ARY NEWS


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *