پولیس اہلکاروں نے انسانیت کی اعلی مثال قائم کردی


0

پاکستان سمیت تیسری دنیا کے بیشتر ملکوں میں لوگوں کا پولیس پر اعتبار اور بھروسہ وہ نہیں ہے، جو عموماً ترقی یافتہ ملکوں میں عوام کے دلوں میں ہوتا ہے، بڑی تعداد میں عوام کی پولیس سے شکوے شکایت ہوتی ہیں کہ پولیس اہلکار کرپشن اور دیگر جرائم کی ناصرف پشت پناہی کرتے ہیں بلکہ ان کے ہاں رشوت کی لین دین بھی ایک معمول کی سرگرمی ہے۔ لیکن یہاں ایک سوال ہے کہ شاید یہ تاثر حقیقت ہو، لیکن کیا ہر اہلکار ان سرگرمیوں میں ملوث ہے؟ بلاشبہ میں اور آپ یقین کے ساتھ تو حامی نہیں بھر سکتے ہیں، کیونکہ مجھے اور آپ کو معلوم ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ سب ایک جیسے نہیں ہوتے ہیں۔

ایسا ہی ایک واقعہ حال ہی میں کراچی میں پیش آیا، جس نے اس بار پھر سے یہ بات باور کردی کہ سب ایک جیسے نہیں ہیں، ہوا کچھ یوں کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک کے ایک معروف گروپ حالات اپ ڈیٹ پر ایک خاتون کی جانب سے ایک پوسٹ جاری کی گئی، جس میں انہوں نے لکھا کہ کس طرح چار پولیس اہلکاروں کی جانب سے ان کی مدد کی گئی۔

Image Source: Halaat Update

خاتون کی پوسٹ کے مطابق اتوار کے روز انہوں ائرپورٹ جانا تھا، ان کی فلائٹ تھی، لہذا وہ سہراب گوٹھ سے فضل مل کی طرف آرہی تھیں ، کہ درمیان میں ان کی گاڑی خراب ہوگئی۔ بار ہاں کوشش کے باوجود گاڑی ٹھیک نہ ہوئی۔ تاہم اس دوران چار پولیس اہلکار آئے اور انہوں نے ہم سے ہماری مشکل کو پوچھا؟

جب ہم نے انہیں اپنی مشکل سے آگاہ کیا تو اہلکاروں نے ناصرف گاڑی کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی بلکہ ہماری وہاں ہر ممکن مدد کی۔ ہمیں وہاں ایک بہت بڑا ڈر تھا کہ کہیں ہمارے ساتھ کسی قسم کی کوئی واردات نہ ہوجائے کیونکہ ہم سفر کررہے تھے تو ہمارے کافی سامان، موبائل اور دیگر قیمتی اشیاء موجود تھیں۔ جس پر پولیس اہلکاروں نے انہیں چاروں طرف سے گھیرے میں لیکر ایک زبردست پروٹوکول دیا۔

جبکہ طویل کوشش کے باوجود جب گاڑی ٹھیک نہ ہوئی تو اہلکاروں کی جانب سے گاڑی کو دھکا دے کر قریبی پارکنگ تک بھی منتقل کیا گیا، یہی نہیں اس دوران جب تک ہم نے آن لائن ٹیکسی سروس کی گاڑی نہ بک کرلی انہوں نے ہماری حفاظت کی، ساتھ ہی انہوں نے اس بات کی بھی یقین دہانی کروائی کہ وہ ان کی گاڑی کی دیکھ بھال کریں گے لہذا وہ بےفکر ہوجائیں، ان کے ان جملوں نے ہمیں بہت زیادہ اطمینان بخشا۔

Image Source: Halaat Update

اس قصے کے حوالے سے خاتون نے مزید لکھا کہ جب انہوں نے کریم کے ڈرائیور سے رابطہ کیا، تو اس نے اتنا سامان دیکھ کر جانے سے انکار کردیا، جس پر پولیس اہلکاروں نے ڈرائیور ان کی طرف سے درخواست کی ، کہ بھائی دیکھ لو کچھ کر لو فلائٹ نکل جائے گی، جس پر ڈرائیور نے کچھ اضافی پیسوں کے عوض سامان کے ساتھ سفر کرنے کی اجازت دے دی۔

دوران آن لائن ٹیکسی ڈرائیور سے ہم سے پوچھا کہ کیا آپ لوگ ان پولیس آفیسرز کو جانتے تھے، جس پر اسے بتایا کہ ہم انہیں نہیں جانتے تھے، جس پر ڈرائیور کا کہنا تھا کہ مجھے لگا شاید یہ آپ لوگوں کو جانتے ہیں، جب ہی اتنی اچھی سیکیورٹی اور پروٹوکول آپ کو فراہم کررہے ہیں۔

جس پر انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ اسے آپ انسانیت کہے سکتے ہیں، ہم ہمیشہ منفی چیزوں پر بات کرتے ہیں لیکن کبھی اپنے اداروں کی مثبت باتوں پر رائے نہیں دیتے ہیں۔

اپنی گفتگو کے آخر میں انہوں نے سندھ پولیس اور خاص کر ان چاروں اہلکاروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ہم آپ لوگوں کا نام نہیں پوچھ سکے لیکن اگر آپ لوگ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں تو آپ لوگوں کا بہت بہت شکریہ اور ہمیں فکر ہے کہ ہمارے پاس آپ جیسے لوگ موجود ہیں۔

کہتے ہیں انسانیت کا کوئی مذہب، کوئی، نسل اور شناخت نہیں ہوتی ہے، یہ تو بس ایک احساس کا نام ہے، جو ایک انسان کے دل میں دوسرے انسان کے لئے زندہ رہنا ایک اچھے پرسکون اور محبت بھرے معاشرے کے لئے بےحد ضروری ہے۔ کیونکہ اگر انسانیت کا احساس نہیں ہوگا تو پھر اشراف المخلوق اور جانوروں کے معاشرے میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *