سندھ محکمہ اثار قدیمہ نے تاریخی عمارتوں کو وائٹ واش کردیا


0

کسی بھی ملک اور قوم کا تاریخی ورثہ اس کے لئے کافی اہمیت حامل ہوتا ہے، کیونکہ وہ وہاں کے لوگوں کی ناصرف پہچان ہوتا ہے بلکہ اس سرزمین پر رہنے اور بسنے والوں کے آباؤ اجداد کی نشانیوں اور یادوں سے منسلک ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں لوگ اپنے تاریخی ورثوں کی یقینی حفاظت کرتے ہیں، کیونکہ ناصرف ان کی اہمیت کو سمجھتے ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لئے انہیں محفوظ بھی رکھنا چاہتے ہیں۔

لیکن یہاں شروع ہوتی ہے ہمارے ملک کے صوبہ سندھ کی ایک کہانی۔ یہ دھرتی انسانی تاریخ کی قدیم ترین جگہ تصور کی جاتی ہے یہاں پر کئی ایسے مقامات موجود ہیں جنہیں ثقافتی ورثوں میں کررکھا گیا ہے، حالیہ وقتوں میں سندھ حکومت کے محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے دو تاریخی مذہبی عمارتوں کی بحالی کا شروع کیا جس میں محکمہ کے جانب سے دونوں عمارتوں کو وائٹ واش کیا گیا ہے، جسے ماہرین اس جگہ کے تشخص کو مٹانے کے مترادف قرار دیے رہیں جبکہ محکمہ نوادارت کا کہنا ہے کہ اس پورے عمل میں قدیم دور کے ساز و سامان استعمال کئے گئے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق سندھ کے محکمہ ثقافت اور آثار قدیمہ کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر حیدرآباد شہر چند کلو میٹر دوری کی مسافت پر واقع ٹنڈو فضل کی ایک تاریخی مسجد کی مرمت کی تصویریں شئیر کیں۔ محکمہ نوادارت کے مطابق یہ جگہ ھینگورانی ماڑیوں کی جگہ جگہ تصور کی جاتی ہے، یہ اس دور کے سیدوں کا گڑھ کہلائی جاتی تھی بعدازاں عباسی یعنی کلہوڑوں دور حکومت میں افغان بادشاہ مدد خان افغان نے اس جگہ پر جملا کیا اور اسے تباہ کردیا۔ اس وقت سندھ کے حاکم نور محمد کلہوڑو تھے۔

تاہم محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے کچھ عرصہ قبل ان کو محفوظ بنانے کا کام شروع کیا گیا البتہ ٹوئیٹر پر جاری کردہ پوسٹ میں لوگوں نے دیکھا کہ محکمے کی جانب سے اس تاریخی مسجد کو وائٹ واش یعنی چونا کردیا گیا ہے، اس پوسٹ پر پاکستان پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کو بھی ٹیگ کیا گیا تھا، جسے عوام کی جانب سے سخت ناپسند کیا گیا اور لوگوں نے فوری ردعمل دیا۔

دوسری جانب سندھ کے وزیر ثقافت اور آثار قدیمہ سید سردار علی شاہ نے موقف اختیار کیا کہ یہ عمارت عباسیوں یعنی کلہوڑوں دور کی فن تعمیر ہے اور وہ عمارتوں پر چونے کا استعمال کیا کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ محکمہ کی جانب سے اس ہی طرز پر چونے کا استعمال کیا گیا ہے، جبکہ باہر کی جانب بھی کرنے چونا اس ہی لئے گیا ہے کہ دیواروں پر دراڑیں نہ پڑھیں۔

مزید جانئے : گلشن حدید میں چھ شیر پنجرے سے نکل کر سٹرکوں پر آگئے

ساتھ ہی ساتھ ضلع تھرپارکر کے علاقے میٹھی کے ارد گرد جین مذہب سے تعلق رکھنے والے کے کچھ مندر موجود ہیں، جن کا شمار اس خطے کے قدیم ترین مندروں میں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے بھوڈیسر اور ویراہ واہ میں موجود مندروں کی خراب حالت کے باعث محفوظ بنانے کے خاطر مرمت کا کروایا گیا تاہم وہاں موجود مندر کے ایک گنبد کے ایدر ایک تصویری کہانی موجود تھی جو اس کی خاصیت تصور کی جاتی تھی البتہ وہ بھی اب چونے کی نظر ہوچکی ہے کیونکہ اس کو بھی اندر سے وائٹ واش کردیا گیا یے۔

اس تمام صورتحال کے بعد گویا سوشل میڈیا پر طوفان برپاء ہوگیا ہو، لوگوں کی جانب سے حکومت حکومت اور محکمہ ثقافت اور آثار قدیمہ کو کافی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے ، لوگوں کا خیال ہے کہ محکمے میں نے انہیں محفوظ نہیں بلکہ برباد کردیا ہے، شاید محکمے کے لوگوں کو اندازہ ہی نہیں قدیم چیزیں کیا ہوتی ہیں اور ان کی اصل حالت کیسی ہوتی اور کیسی ہونی چاہیے مرمت کے بعد۔

البتہ اس ردعمل کے بعد محکمہ ثقافت اور آثار قدیمہ کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر جاری کی گئی پوسٹ کو فوری طور پر ہٹا دیا گیا ہے۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *