فضائی آلودگی کو جانچنے کیلئے شہر کے مختلف مقامات پر سینسر نصب کردئیے


0

کئی دنوں سے لاہور اور گوجرانوالا سمیت پنجاب کے کئی علاقوں میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی اسموگ کی شکل اختیار کررہی ہے اور ماہرینِ صحت نے اس ماحول کو صحت کے لئے نقصان دہ قرار دے رہے ہیں۔

اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے پنجاب یونیورسٹی کی تحقیقاتی ٹیم نے اسموگ سمیت فضائی آلودگی جانچنے کے لئے شہر کے مختلف مقامات پر 10 گیجٹ نصب کردیئے ہیں۔

Image Source: File

پنجاب یونیورسٹی اور سربراہ تحقیقاتی ٹیم ڈاکٹر ذوالفقار علی کے مطابق برٹش کونسل کی مالی مدد سے تیار کیے گئے ان آلات سے آلودگی کا صیح اندازہ ہوسکے گا جبکہ سموگ کو سمجھنے میں یہ سینسرز زمینی حقائق کے ساتھ ڈیٹا بھجیں گے۔یہ سینسر انارکلی ، ڈی ایچ اے ، جوہر ٹاؤن ، بحریہ ٹاؤن ، ٹاؤن شپ ، پنجاب یونیورسٹی ، والٹن ، اقبال ٹاؤن ، اور واپڈا ٹاؤن میں نصب کیے گئے ہیں۔ ان سستے اور معیاری سینسر پہلے فضائی آلودگی جانچنے کا واحد ذریعہ صرف سیٹلائٹ تھا۔ یہ سینسر ریئل ٹائم ڈیٹا فراہم کریں گے اور عام آدمی بھی ان سے صورتحال کا جائزہ لے سکتا ہے۔

مزید برآں ، ان سینسر سے حاصل شدہ نتائج عوام ، حکومت اور قانون سازوں کو آلودگی کے صحت پر خطرات کو کنٹرول کرنے اور آلودگی کو روکنے کے لیے تعلیم دینے کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔ یہ اعداد وشمار محققین انسان اور جانوروں کی زندگی اور ماحولیاتی صحت پر ہوا کے معیار کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے بھی استعمال کریں گے۔

Image Source: Economics Times

اس حوالے سے ڈاکٹر ذوالفقار علی نے مزید بتایا کہ سموگ سینسرز کی مالیت تقریباً 7 کروڑ روپے ہے لیکن پنجاب یونیورسٹی کی جانب سے تیار کیے جانے والے سینسر کی لاگت ایک لاکھ روپے اور لائف پیریڈ 15 سال ہے، ان آلات سے جمع ہونے والا ڈیٹا امریکی سیٹلائٹ سے بھی زیادہ معتبر ہے۔ نیز ، یہ کم لاگت والے فضائی آلودگی کے یہ سینسر ہوا کے معیار کی جانچنے کے ساتھ اسے بہتر بھی بنائیں گے۔ مزید یہ کہ پنجاب یونیورسٹی نے پہلے ہی پورے لاہور میں سینسرز کا ایک نیٹ ورک قائم کر چکی ہے۔ مزید یہ کہ وہ اس نیٹ ورک کو اگلے مرحلے میں پاکستان اور ہندوکش ہمالیہ کے دیگر ممالک تک پھیلائیں گے۔

واضح رہے کہ پنجاب یونیورسٹی کے ڈاکٹر ذوالفقار علی اور کرین فیلڈ یونیورسٹی کے ڈاکٹر ظہیر احمد نصر نے پارٹنر شپ میں پاکستان میں ائیر کوالٹی مینجمنٹ پر پوسٹ گریجویٹ تعلیم اور تحقیق کو فروغ دینے کے لیے پروگرامز مرتب کیے ہیں جبکہ یہ دونوں اس منصوبے میں بھی حصہ لے رہے ہیں جس کا عنوان ’’ہائی ریزولوشن اسپیٹو ٹمپورل میجرمینٹ آف ائیر کوالٹی ان لاہور‘‘ ہے، یہ مطالعہ ہندوکش ہمالیہ میں ہوا کے معیار کو درپیش چیلنجز کو کم کرنے کے ایک منصوبے کا حصہ ہے۔

Image Source: Amnesty International

اس کی قیادت ڈاکٹر نصر، پروفیسر نیل حارث ، اور کرین فیلڈ یونیورسٹی سے ڈاکٹر کرس والٹن ڈاکٹر علی اور ڈاکٹر اقبال میڈ (علاقائی پروگرام منیجر ایٹموسفیر ، آئی سی آئی ایم او ڈی ، نیپال) کے اشتراک سے کررہے ہیں۔اس سے پہلے بھی برطانیہ اور پاکستان کے ماہرین تعلیم نے ایئر کوالٹی نیٹ ورک کے قیام کے بعد چارورکشاپس منعقد کیں ،جس میں پاکستان میں فضائی معیار کے چیلنجز کے بارے میں معلومات کے لیے پنجاب یونیورسٹی کے طلباء اور محققین نے حصہ لیا۔

بلاشبہ اس وقت پوری دنیا میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی انسانی صحت پر منفی اثرات مرتب کررہی ہے۔پچھلے سال کورونا وائرس لاک ڈاؤن کے بعد ، ایک تحقیق میں دعویٰ کیا گیا کہ جب سے چین نے اپنی صنعتیں بند کیں تو فضائی آلودگی میں کافی کمی دیکھی گئی۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *