پاکستانی نرسز کا عالمی اعزاز،دنیا کی ممتاز نرسوں میں 8 پاکستانی شامل


0

نرسنگ کسی بھی ملک کے ہیلتھ کیئر کا بنیادی حصؔہ تصور کیا جاتا ہے اور پاکستان میں یہ شعبہ نہایت اہمیت کا حامل ہے یہی وجہ ہے کہ اس شعبے سے وابستہ ہماری خواتین کی خدمات کو عالمی سطح پر سراہا گیا ہے اور گلوبل 2020 کی 100 آؤٹ اسٹینڈنگ ویمن نرسز اینڈ مڈوائفس کی فہرست میں 8 پاکستانی نرسز اور مڈوائفس کو بھی شامل کرلیا گیا ہے۔

یہ تمام خواتین آغاخان یونیورسٹی اسکول آف نرسنگ اینڈ مڈوائفری (سونم) سے بطور اساتذہ منسلک ہیں یا اس ادارے کی فارغ التحصیل طالبات ہیں۔

آغا خان یونیورسٹی کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق دنیا بھر کے 43 ممالک سے 100 نرسوں اور مڈوائفس کو صحت عامہ کے معیارات کو بہتر بنانے کے لیے خصوصی خدمات اور عالمی وباء کی مشکل صورتحال میں ان کی مسلسل محنت کی بدولت انہیں اعزازات سے نوازا گیا ہے۔

ان خواتین کو ویمن ان گلوبل ہیلتھ (ڈبلیو جی ایچ) کی جانب سےیہ اعزاز دیئے گئے ہیں جو عالمی ادارۂ صحت، اقوام متحدہ پاپولیشن فنڈ، نرسنگ ناؤ، انٹرنیشنل کونسل آف نرسز اینڈ انٹرنیشنل کنفیڈریشن آف مڈوائفس کے ساتھ اشتراک میں کام کرتا ہے۔

اسکول آف نرسنگ کی ڈین ڈاکٹر روزینہ کرملیانی کو “بورڈ اینڈ مینیجمنٹ” کیٹیگری کے تحت اعزاز دیا گیا ہے، جبکہ اساتذہ یاسمین پارپیو اور ثمینہ ورٹیجی کو “کمیونٹی ہیرو” کیٹگری کے تحت مقامی آبادی کی صحت اور نرسنگ خدمات کے اعتراف میں اعزازات دیے گئے ہیں۔

ادارے کی استاد صائمہ سچوانی کو “ہیومن کیپیٹل ڈیویلپمنٹ” کیٹگری کے تحت مؤثر نصاب کی تیاری و تشکیل کے سلسلے میں کی گئی خدمات کے اعتراف میں اعزاز دیا گیا ہے۔

نرس و مڈوائف مرینہ بیگ کو “انوویٹیو سائنس اینڈ ہیلتھ” کیٹگری کے تحت موبائل ہیلتھ ٹیکنالوجی کو ماؤں کی صحت میں بہتری کے لیے استعمال کرنے کی کاوشوں کے اعتراف میں اعزاز دیا گیا ہے۔

سونم سے فارغ التحصیل تین طالبات کو بھی “کمیونٹی ہیرو” کیٹیگری کے تحت اعزازات دیئے گئے۔

شیلا ہیرانی کو کووڈ-19 عالمی وباءکے دوران ماں کے دودھ کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور اس کے فروغ، تحفظ اور معاونت کی سرگرمیوں پر، نیلم پنجانی کو جنسی اور تولیدی صحت اور حقوق کے حوالے سے بہتری اور معاونت پر اور صدف سلیم کو معمر افراد کی نرسنگ کے سلسلے میں خدمات کے حوالے سے اعزازات دیے گئے ہیں۔

بلاشبہ دنیا کے کسی بھی ملک میں صحت عامہ کے شعبے میں نرسنگ کے پیشہ کی اہمیت وہی ہے جو زندہ رہنے کے لیے سانس لینے کی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ علاج معالجے کی سہولتیں کتنی ہی میسر کیوں نہ ہوں، علاج کرنے والے اپنے شعبہ میں کتنی ہی مہارت کیوں نہ رکھتے ہوں، جب تک اس پورے نظام کو تربیت یافتہ نرسز کی سہولت حاصل نہ ہو، علاج معالجے کا نظام احسن طریقے سے نہیں چلایا جاسکتا۔ تاہم، بین الاقوامی ادارے کی جانب سے پاکستانی نرسز اور مڈوائفس کی یہ حوصلہ افزائی بلاشبہ ان کی انتھک محنت کا نیتجہ ہے۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *