پاکستان کی پہلی فوڈ ڈیلیوری رائیڈر کرن خورشید کے حوصلے بلند


0

میں آندھیوں کے پاس تلاش صباء میں ہوں ۔۔۔
تم مجھ سے پوچھتے ہو، میرا حوصلہ ہے کیا ۔۔۔

کہتے ہیں انسان معاشرے میں محض اس وقت تک ہی کمزور اور بےبس ہے جب تک وہ کوشش نہیں کرتا، اگر انسان ایک بار کسی چیز کو عظم بنا لے تو پھر اس کو کوئی چیز بھی نہیں روک سکتی ہے۔ آج اس کی سب سے بڑی مثال کرن خورشید کی شکل میں ہے، جس نے اس بات کو ثابت کیا کہ کوئی بھی انسان چاہئے وہ مرد ہو یا عورت دنیا میں کمزور نہیں ہے بس حالات سے لڑنے کا حوصلہ ہونا چاہئے۔

کورونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والے خراب حالات نے کئی لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا وہیں ان میں ایک نام کرن خورشید کا بھی تھا۔ جنہوں نے اس لاک ڈاؤن کے عرصے میں اپنی نوکری کھوئی تاہم دل میں بس یہی خیال تھا کہ کس طرح اپنی اور اپنی بیٹی کی کفالت کی جائے۔ اگرچہ کرن خورشید نے ایک منفرد ہنر جو اپنی گزشتہ ڈھائی سالہ نوکری کے دوران کرن نے سیکھا، وہ بائیک چلانا تھا۔ کرن نے سوچا کیوں نہ اس ہی ہنر کا استعمال کیا جائے اور اپنی موجودہ مشکلات کو کم کیا جائے۔ پھر کیا کرن خورشید پہنچ گئیں فوڈ پانڈا کے آفس اور اپلائی کیا فوڈ رائیڈر کی جاب کے لئے اور اب وہ پاکستان کی پہلی باقاعدہ طور پر فوڈ ڈیلیوری رائیڈر ہیں اور ساتھ ہی وہ اب اپنے گھر کی کفالت بھی بہتر انداز میں کررہیں ہیں۔

پڑھلو ڈاٹ کام کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کرن خورشید نے اپنے سفر کے بارے میں بتایا کہ جب لاک ڈاؤن کے باعث ان کی نوکری چلی گئی تو انھیں ابتداء میں کافی پریشانی ہوئی کہ وہ اپنی بیٹی کی کس طرح کفالت کریں گی تاہم پھر انہوں نے فوڈ پانڈا کی انتظامیہ سے رابطہ کیا اور رائیڈر کی نوکری کے لئے درخواست دی جس پر ان کو فوری اور باآسانی طور پر نوکری دے دی گئی۔

کرن خورشید نے اپنی گزشتہ نوکری کے بارے میں بتاتے ہوئے بتایا کہ وہ ایک این جی او کے ساتھ کام کیا کرتی تھیں، جہاں انھیں فلیڈ ورک کرنا ہوتا تھا جس پر ان کو پریشانی پیش آنے لگی تھی، پھر اس دوران اپنے کام کو آسان کرنے کے لئے کرن خورشید نے بائیک خریدنے کا فیصلہ کیا۔ ابتداء میں بائیک چلانے کا کوئی خاطر خواہ اندازہ نہیں تھا پر ماموں کے بیٹے نے ان کو بائیک سیکھانے میں مدد فراہم کی۔

بائیک چلانے اور فوڈ رائیڈر کی نوکری کے حوالے سے گھر والوں کی سپورٹ کے سوال پر کرن خورشید کا کہنا تھا کہ وہ ایک سینگل مدد ہیں، ان کی ایک بیٹی ہے اور وہ اپنے والدین کے ہمراہ رہتی ہیں۔ ان کا کوئی بھائی نہیں ہے لہذا وہ اپنے والدین پر بوجھ نہیں بننا چاہتی تھیں ۔ انہوں نے اپنے والد سے اس نوکری ذکر کیا جس پر والد صاحب نے مجھے ہمیشہ کی طرح سپورٹ کیا۔ لوگ کیا کہیں گے کہ سوال پر کرن خورشید نے کہا کہ میرے والد نے مجھ سے کہا کہ آخر کیا ہوگا لوگ کہیں مجھ سے آکر سوال کریں گے کہ تمہاری بیٹی کیا کررہی یے وہ میرا مجھ سوال ہوگا اور مجھے اس پر اعتراض نہیں تو یہ بات پھر فکر نہیں کہ لوگ کیا کہیں گے۔ انہوں مزید کہا کہ جب والد کے سپورٹ ہے پھر لوگوں کا کہنا کچھ معنی نہیں رکھتا ہے۔

اپنے دیئے گئے انٹرویو میں کرن خورشید نے بتایا کہ بطور فوڈ پانڈا رائیڈر جب انہوں نے کام شروع کیا تو وہ جب لوگوں کے آرڈر لے کر کسٹمرز کے گھروں پر جایا کرتیں تھیں تو لوگ حیرانی کا اظہار کیا کرتے تھے، ان کو پہلے یہ یقین نہیں آتا تھا کہ واقعی وہ فوڈ پانڈا کی رائیڈر ہیں یا نہیں، لیکن جب کسٹمرز میری شرٹ اور میرا فوڈ کا بیگ دیکھا کرتے تھے تو انھیں یقین آتا تھا کہ میں واقعی رائیڈر ہوں۔ لوگ بہت خوشی کا اظہار کرتے ہیں دیکھ کر، حوصلہ دیتے ہے کہ آپ خاتون ہوکر کام کررہیں اتنے برے حالات میں، بہت اچھے رویے ہوتے کسٹمرز کے جس سے واقعی بہت خوشی بھی محسوس ہوتی ہے۔

خواتین کے گھروں باہر نکلنے اور کام کرنے میں ڈر و خوف کے سوال پر کرن خورشید کا کہنا تھا کہ انسان کا سب سے زیادہ بھروسہ اللہ کی ذات پر ہوتا ہے، پھر اپنے اندر بھی ایک حوصلہ ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ہر معاشرے میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں، اب تک کام کے تجربے میں فلحال اچھے ہی لوگ ملے ہیں، اگر کبھی راستے میں بائیک وغیرہ خراب بھی ہوجاتی ہے تو کافی لوگ مدد وغیرہ بھی کرتے ہیں۔ جس حوصلے اور بھی بلند ہوتے ہیں۔

اپنے دیئے گئے انٹرویو میں کرن خورشید نے جہاں فوڈ پانڈا کی انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا وہیں انہوں نے لاک ڈاؤن سے متاثرہ افراد کو یہ پیغام بھی دیا کہ یقیناً اس وقت حالات خراب ہیں لیکن میں بھی باہر نکلی ہوں کام مل گیا ہے، آپ لوگ بھی کوشش کریں فوڈ پانڈا ہی جوائن کرلیں یہاں پر کافی بہتر سہولیات ہیں اور اچھی آمدنی کا ذریعہ بھی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے خواتین کو بھی خصوصی پیغام دیتے ہوئے کہا کہ خواتین بھی اپنے دائرے میں بہت کچھ کرسکتی ہیں بس ہمت کریں اور کوششیں جاری رکھیں۔

واضح رہے ہمارے معاشرے میں خواتين کو سماجی رویوں کے باعث زیادہ مشکلات اور زیادہ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن کرن خورشید کی ہمت اور حوصلے نے اس بات کو مزید تقویت بخشش دی ہے کہ خواتین دنیا کا اب ہر کام کرسکتی ہیں، وہ اب معاشرے میں مردوں کے شانا بشانہ کھڑی ہیں اور ہر برے وقت کا سامنا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔ لہذا انھیں اگر ضرورت ہے تو بس حوصلہ افزائی کی ہی ہے۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *