وکالت میں ایم فل میں داخلہ لینے والی پہلی خواجہ سرا نیشا راؤ


0

خواجہ سرا کو اگر ہمارے معاشرے کا ایک مظلوم اور پسا ہوا طبقہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، جہاں ان کے والدین پرورش کرنے سے انکار کردیتے وہیں افسوس ہمارے سماج میں انہیں کوئی روزگار تک دینے کے لئے راضی نہیں ہے۔ لیکن کہتے ہیں نہ کوئی بھی شخص اس وقت تک کمزور ہے، جب تک وہ خود اپنے آپ کو کمزور سمجھتا ہے اور انہیں لوگوں میں ایک نام کراچی سے تعلق رکھنے والی نیشا راؤ کا ہے، جو ناصرف پاکستان کی پہلی خواجہ سرا وکیل ہیں بلکہ غیر مساواتی معاشرے میں اپنے اعلیٰ تعلیمی سفر جو جاری بھی رکھے ہوئے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق معروف وکیل اور ایکٹوسٹ نیشا راؤ نے حال ہی میں ایک اور اعزاز اپنے نام کرلیا ہے، وہ پاکستان کی اب پہلی خواجہ سرا ہیں، جو جامعہ کراچی کے شعبہ قانون میں ایم فل میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوئیں ہیں۔ وہ وہاں سے قانون میں ایل ایل ایم کی ڈگری کر رہی ہیں۔

Image Source: File

جیو نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے نیشا راؤ نے کہا کہ وہ دو ماہ سے بہت پریشان تھیں۔ “انہوں نے اس سال جون میں امتحان دیا تھا ، لیکن صرف چار دن انہیں مطلع کیا گیا تھا کہ انہیں ایم فل میں داخلہ مل گیا ہے۔”

دو سالہ ایل ایل ایم کی ڈگری ایم فل کی ڈگری کے برابر ہے ، اور یہ پہلا موقع ہوگا جب کوئی ٹرانس جینڈر شخص ڈگری حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس موقع پر جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر خالد عراقی نے نیشا راؤ کو بتایا کہ جامعہ کراچی پاکستان کا پہلا ادارہ ہے، جس نے ایک خواجہ سرا کو ایل ایل ایم کی ڈگری کے لئے داخلہ دیا ہے۔

nisha rao
Image Source: File

نیشا راؤ کا مزید کہنا تھا کہ وسائل کی کمی کی وجہ سے خواجہ سراؤں کے لیے پاکستان میں تعلیم حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے وضاحت کی کہ تعلیمی ادارے ان کی برادری کے لوگوں کو نہ داخلہ دیتے ہیں اور نہ ہی ان کے لیے کوئی کوٹہ سسٹم مختص کیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا ، “میں نے ایل ایل ایم کے لیے ایک سمسٹر کے لیے 104،000 روپے فیس ادا کی ہے ، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرانسجینڈر افراد کے لیے جو کہ زیادہ تر سڑکوں پر بھیک مانگتے ہیں – اعلی تعلیم کے لیے ادائیگی کے قابل ہونا کتنا ناممکن ہے۔”

مزید پڑھیں: خواجہ سرا رانی نے بھیک اور ڈانس چھوڑ کر اپنا مدرسہ کھول لیا

اس کے علاوہ ، نیشا راؤ نے نوٹ کیا کہ انہیں اپنی ایل ایل ایم کی ڈگری مکمل کرنے کے لیے تقریبا ً400،000 روپے سے زیادہ خرچ کرنا پڑے گے، جبکہ انہوں نے 170،000 روپے میں ایک سکوٹی بھی خریدی ہے تاکہ وہ یونیورسٹی آنے کے لئے آسانی سے سفر کرسکیں۔

transgender admission in MPhil
Image Source: File

نیشا راؤ نے افسردگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے یہاں خواجہ سرا برادری کے لیے کوئی اسکالرشپ پروگرام نہیں ہے، اگرچے ’وہ اپنے لیے کسی قسم کا کوئی وظیفہ نہیں مانگ رہی ہیں لیکن یونیورسٹیوں کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ خواجہ سراؤں کو وظائف دیں تاکہ انہیں بھیک نہ مانگنی پڑے۔‘

پاکستان کی پہلی خواجہ سرا وکیل نیشا راؤ نے سوال کیا کہ کیا انہیں نہیں معلوم کہ ہمارا ذریعہ معاش کیا ہوتا ہے؟ میرے لیے بے شک فیس میں کسی قسم کی رعایت نہ کی جائے لیکن وہ خواجہ سرا جو پڑھنا چاہتے ہیں اور ضرورت مند ہیں ان کے لیے ضرور فیس میں کمی کرنی چاہیے۔’

nisha rao
Image Source: File

جامعہ کراچی کی انتظامیہ کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انتظامیہ روئیہ ان کے ساتھ تعاون اور مددگار کن تھا۔ انہوں نے ناصرف انہیں داخلے پر مبارکباد دی۔ بلکہ ان سے پوچھا بھی گیا کہ کیا وہ ہراساں کرنے یا دھونس سے ڈرتی ہیں ،تو نیشا نے اعتماد سے جواب دیا کہ یہ فرد پر منحصر کرتا ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے اس بات کو باور کیا کہ ’اگر کوئی خراجہ سرا اچھا بولتا ہے، کم میک اپ کرتا ہے، مناسب طریقے سے چلتا ہے اور پُراعتماد رہتا ہے تو لوگ انہیں پریشان نہیں کرتے ہیں۔

یاد رہے پاکستان کی پہلی خواجہ سرا وکیل نیشا راؤ نے سال 2018 میں سندھ مسلم لاء کالج سے وکالت کی ڈگری حاصل کی تھی۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا تھا کہ وہ صبح میں وکالت کی تعلیم حاصل کیا کرتی تھیں اور رات میں سڑکوں پر بھیک مانگا کرتی تھیں اور انہیں بھیک سے مانگے گئے، پیسوں سے انہوں نے وکالت کی تعلیم کے اخراجات برداشت کئے تھے۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *