حالیہ دنوں میں لاہور کتاب میلے کے حوالے سے ایک تصویر اور پاکستانی ٹی وی اداکار خالد انعم سے منسوب ایک بیان سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وائرل ہوا۔ اس تصویر کے ساتھ دعویٰ کیا گیا کہ عالمی کتاب میلہ ایک فوڈ فیسٹیول میں تبدیل ہو گیا، جہاں شرکا نے کتابوں کے مقابلے میں کھانے پینے کی اشیاء خریدیں۔
پاکستان کے سوشل میڈیا پر گذشتہ چند روز سے لاہور کتاب میلے کے حوالے سے ایک تصویر وائرل ہے جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ لاہور میں منعقد ہونے والا عالمی کتاب میلہ ایک فوڈ فیسٹیول میں تبدیل ہو گیا اور شرکا نے کتابوں سے زیادہ کھانے پینے کی اشیا خریدیں جس میں صرف 35 کتابیں فروخت ہوئیں جبکہ 1200 شوارمے اور 800 بریانی کی پلیٹیں خریدی گئیں۔۔ خالد انعم کی اس پوسٹ پر صارفین کی بڑی تعداد نے کتابوں کی فروخت نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کیا۔
اس وائرل تصویر اور بیان کو سوشل میڈیا پر مختلف صارفین کی جانب سے شیئر کیا گیا اور کچھ سیاستدانوں نے بھی اس پر تبصرے کیے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ پیٹ اور دماغ کے مقابلے میں دماغ کے جیتنے کے چانس کم ہوتے ہیں۔ ویسے بھی ہمارے دماغ کو زیادہ استعمال کرنے کی عادت کم ہے
Khalid Anam Apologize
خالد انعم کا بیان
اس بارے میں غیر ملکی خبررساں ادارے سے بات کرتے خالد انعم نے بتایا کہ تقریباً دو روز قبل ان سے یہ غلطی ہوئی کہ انھوں نے سوشل میڈیا پر انگریزی میں ایک پوسٹ دیکھی اور اس کا اردو میں ترجمہ کر کے بنا تصدیق کیے ازراہ مذاق یہ فقرے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر شئیر کیے تھے جن کو تقریباً ایک گھنٹے کے اندر ہی بنا تصدیق کے وائرل کر دیا گیا۔
انہوں نے اس بارے میں مزید کہا کہ میں نے یہ جملے لکھنے کے ایک گھنٹے بعد ہی اپنا اسٹیٹس ڈیلیٹ کر دیا تھا لیکن سب نے بنا تصدیق کیے اسے وائرل کر دیا۔
اداکار نے اس حوالے سے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے غیر مصدقہ معلومات کو شیئر کرنے پر معذرت کی۔
انہوں نے سوشل میڈیا پر جاری بیان اور بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ کتنے افسوس کی بات ہے اور میں بھی بنا تصدیق کے ایسی معلومات شیئر کرنے پر معذرت چاہتا ہوں، اگرچہ میں نے اسے ایک لطیفہ سمجھتے ہوئے شئیر کیا لیکن اس سے ملک کے عوام اور شہروں کی بدنامی ہوئی۔‘
اداکار خالد انعم نے اب غلطی کی معافی مانگتے ہوئے کہا کہ انھوں نے سوشل میڈیا پر انگریزی میں ایک پوسٹ دیکھی اور اس کا اردو میں ترجمہ کر کے بنا تصدیق اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر شیئر کر دیا جس کو بنا تصدیق کے وائرل کر دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بنا تصدیق کے ایسی معلومات شیئر کرنے پر معذرت چاہتے ہیں، اگرچہ میں نے اسے ایک لطیفہ سمجھتے ہوئے شئیر کیا۔
مذید پڑھیئں
بھول گئے نا وائی فائی کا پاس ورڈ؟ تو اس آسان سے طریقے اسے دو بارہ حاصل کریں
خالد انعم نے مزید کہا کہ اوہ آج کے بعد بغیر تصدیق کے کوئی بھی چیز اپلوڈ نہیں کریں گے۔
بھارتی اخبار ہندوستان ٹائم نے بھی اس جھوٹی خبر کو بنا تصدیق کیے ایک سچی خبر کے طور پر پیش کیا جس سے پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی۔
کتب میلے کے بارے میں عوامی رد عمل
سوشل میڈیا پر مختلف صارفین نے اس واقعے پر اپنی رائے دی، جیسے کہ ڈاکٹر ضیا الدین نے کہا کہ ”میلے کے شرکا نے علم کو ترجیح دی۔“ جبکہ نادیہ علی نے کتابوں کی مہنگائی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انڈین کتابیں سستے کاغذ پر چھاپی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ کم دام پر دستیاب ہیں۔
تاہم کتب میلے میں شریک کئی افراد نے اس بات کی نفی کی اور کہا وہ خود کتب میلے سے دس دس کتابیں خرید کرلائے تھے اور دوسرے لوگوں کو بھی کتابوں کی خریداری کرتے دیکھا تھا۔
یہ صورت حال واضح کرتی ہے کہ سوشل میڈیا پر معلومات کی جلدی اور بنا تصدیق شیئرنگ کس طرح عوامی رائے اور ثقافتی تقریبات کو متاثر کر سکتی ہے۔ اس واقعے نے یہ بھی ظاہر کیا کہ کتابوں کا کلچر خطرے میں ہے، لیکن یہ ختم نہیں ہوا۔ عوامی آگاہی اور صحیح معلومات کی اشاعت اس ثقافت کو بچانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
واضح رہے کہ یہ بک فیسٹیول رواں برس فروری میں منعقد ہوا تھا اب آٹھ ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد اس میں فروخت ہونے والی کتابوں پر بحث ہو رہی ہے۔
0 Comments